" چلیں؟" مطلع صاف ہوتے ہی وہ معصوم صورت بناۓ انکھیں پٹپٹاتے ہوۓ نمودار ہوئی۔ دل تو چاہا اس کو کھری کھری سنا دوں لیکن اس کی قسمت اچھی تھی کہ میں اپنے بناۓ ہوۓ لائحہ عمل سے ہٹ کے کوئی کام نہیں کرتا تھا سو گردن اکڑاۓ اس کو پیچھے انے کا اشارہ کرتے میں باہر نکل گیا۔
" واہ خوب صورتی اور معصومیت کا ایسا ملاپ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔" ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ینگ سے کپل کو دیکھتے ہوۓ میں نے منصوبے کے مطابق کام شروع کر دیا تھا۔ میرے اس طرح کہنے پر سارہ نے بھی مڑ کے اس لڑکی کو دیکھا تھا۔
" ہم! کچھ جلنے کی بو آ رہی ہے۔" میرا دل زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔
" دراصل سارا! میں فطرتا بہت حسن پرست ہوں ۔ خوب صورتی بہت متاثر کرتی ہے مجھے' کھینچتی ہے مجھے اپنی جانب۔" نہایت جزب سے میں نے گھسے پٹے ناول کی رٹی ہوئی لائینں پڑھی تھیں۔
" ہونہہ ' آخر ہے نا نازک سے دل والی لڑکی ۔۔۔۔ ہو گئی فورا عدم تحفظ کا شکار۔ اب دیکھتا ہوں کہ کیسے رہتی ہو تم اتنی مطمئن۔ " میں بغور اس کے چہرے کی بنتے بگڑتے زاویے دیکھ رہا تھا۔
یعنی کہ تیر نشانے پر لگا ہے۔ میں نے نظریں اس سے ہٹاتے ہوۓ کسی اور دوشیزہ کی تلاش میں انکھیں یہاں وہاں گھمائیں۔
" وہ دیکھو ایک اور حسین چہرہ چاندنی میں ڈھلا ہوا۔" میں دل پھینک عاشق بنا( جو کہ یقین جانیے میں ہرگز نہیں ہوں) ایک ایک کرتا نجانے کتنی لڑکیوں کو سراہتا چلا گیا۔
شادی کے بعد پہلی بار میرا کوئی پلان کامیابی کی آخری حدوں کوچھو رہا تھا۔
سارا کا چہرا مرجھایا ہوا پھول بن چکا تھا' پلیٹ میں چمچ چلاتے وہ بمشکل کچھ کھا پا رہی تھی۔ اور میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ یہاں وہاں نظریں گھماتے میں نے چاولوں سے بھرا ہوا چمچ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ دو عدد سر پھرے پٹھانوں نے میرا گریبان پکڑ کر کھڑا کرتے ہوۓ دو عدد زناٹے دار تھپڑ دے مارے۔ پورے ریسٹورنٹ میں جیسے بھونچال سا مچ گیا۔ بچ بچاؤ کراتے ویٹرز اور گالیاں دیتا ریسٹورنٹ کا منیجر ' کوئی بھی مجھے اس آفت ناگہانی سے صحیح سلامت باہر نہ نکال سکے۔ جسم پر تو جو چوٹیں لگیں وہ تو لگیں ' لیکن وہاں بیٹھی اکثریت نے مجھے جس نظر باز اور کمینی فترت کا مرد قرار دیتے ہوۓ میرے ضمیر پہ جو کوڑے برساۓ ' اس کے زخم شاید ساری زندگی نہ بھر سکیں۔
اور ان ذلت بھرے زخموں پہ چاٹ مصالے کا چھڑکاؤ تو تب ہوا جب چند بزرگ خواتین نے میری بیوی کی قوت برداشت کی ستر توپوں کی سلامی پیش کرتے ہوۓ اسے صبر و عظمت کی دیوی قرار دیا۔
" دودھ گرم کر کے لائی۔۔۔ ساتھ یہ دو تین پین کلرز لے لیں' رات ارام سے گزر جاۓ گی۔"
دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوۓ اس نے دراز سے ٹیبلٹ نکالیں۔
" ایسی چھوٹی موٹی تکلیفیں تو مردوں کو ہوتی رہتی ہیں۔ اب ایسے بات بات پہ عورتوں کی طرح دوائیاں پھانکنا مردون کو زیب نہیں دیتا۔"