دل میں موہوم سی امید تھی کہ وہ اصرار کرتی ' میرے لاڈ اٹھاتی' زبردستی مجھے دوا کھانے پر مجبور کرے گی مگر وہ کندھے اچکاتی باہر نکل گئی۔
"توبہ! کیسی بے دردی سے مارا ہے بدمعاشوں نے میرے لعل کو ۔" میری پیاری اماں میرا دھنا ہوا چہرا اپنے ہاتھون کے پیالے میں تھامے آٹھ آٹھ آنسو بہا رہی تھیں۔
" ہاہاہاہا' اماں! اپ کے لعل تو انہوں نے نیلا ' ہرا کر کے رکھ دیا' ویسے کیف! یہ کیسے عجیب چور تھے یار! جنہوں نے نہ ہی تمہارا والٹ چھینا نہ ہی موبائل' حتی کہ بھابی کا زیور بھی نہیں اتروایا۔ خالی تمہیں مار پیٹ کر چلتے بنے۔ کہیں انہیں یہ تو خبر نہیں ملی کہ تم نے اپنی کھال کے اندر کچھ نادر و نایاب ہیرے چھپا رکھے ہیں جو وہ تمہاری چیر پھاڑ کر کے نکالنا چاہتے تھے۔ جیسا کہ انگریزی فلموں میں ہوتا ہے۔"
جلتی پر تیل چھڑکتا یہ میرا ماں جایا ہے۔۔۔۔۔ جی ہاں میرا سگا بھائی جو میری ہر تکلیف پہ اپ کو ایسے ہی ہنستا' کھلکھلاتا بھنگڑا ڈالتا نظر آۓ گا ۔ کہنے کو یہ میرا جڑواں بھائی ہے لیکن مجال ہے جو یہ کبھی کسی مصیبت میں میرے ساتھ جڑ کے کھڑا ہو جاۓ۔
خیر کون سے دکھ کی بات کریں ہم تم تو بس ایک ہی دکھ پوچھتے ہو۔۔۔۔ تو بات ہو رہی تھی میری ناکامیوں کی۔
آفس سے لی گئیں تین ہفتے کی چھٹیاں میں نے نئی نویلی دلہن کے ناز اٹھانے کی بجاۓ سازشوں کا تانا بانا بنتے گزار دیں۔ اب کی بار میرا فوکس مقصد نمبر تین یعنی بیوی پہ اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے پر تھا۔ اچھی بھلی استری شدہ شرٹ کو اٹھاۓ میں مصنوعی غصے سے تن فن کرتا ڈائننگ ٹیبل تک پہنچا تھا ۔
" یہ کوئی شرٹ ہے۔" اس کے سر پہ کھڑے ہوتے میں زور سے دھاڑا تھا۔ اپ کو پینٹ لگ رہی ہے کیا۔" وہ حیران ہوتی شرٹ کو ٹٹول کے دیکھنے لگی تو مجھے آگ ہی تو لگ گئی۔
" یہ داغ دیکھے ہیں تم نے ۔۔۔یہ طریقہ ہے کپڑے دھونے کا۔۔۔۔اس طرح کی شرٹ میں آفس پہن کر جاؤں۔۔۔۔ کیا سوچیں گے لوگ کس طرح کی فیملی سے تعلق ہے میرا جس کی عورتوں کو کپڑے دھونا بھی نہیں اتے۔" میں مارے غصے کے ہانپنے لگا۔
" شاباش بیٹا! شاباش ۔۔۔۔ جمعہ جمعہ اٹھ دن نہیں ہوۓ شادی کو اور تمہیں ماں کے دھلے ہوۓ کپڑوں میں نادیدہ داغ بھی نظر انے لگے۔ اور طوطا چشمی کی انتہا تو دیکھو ' لگے اپنی بیوی سے اپنی سگی ماں کی شکایتیں جڑنے لگے۔ اسی دن کے لیے پال پوس کر جوان کیا تھا تم لوگوں کو کہ اپنی چہیتیوں کی نظر میں مجھے پھوہڑ ثابت کرتے پھرو ' یہ دن دیکھنے سے پہلے مین اٹھا لی جاتی تو کیا تھا۔" میں اس نئی افتاد پر ہڑ بڑابا کر رہ گیا۔
" ارے اٹھانے میں کون سا دیر لگتی ہے پیاری اماں! اتنی دھان پان سی تو ہیں اپ۔ یہ لیں اٹھا لیا اپ کو۔" میرے اگ لگاتے جڑواں بھائی نے کسی جن کی طرح سچویشن میں انٹری دی تھی۔ اور اب وہ میرے ہاتھ سے شرٹ لے کے اماں کے سامنے پھیلا کے دیکھتے ہوۓ داغ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔