" بھائی! کیا اپ یہاں منہ بسورے بیٹھے ہو ۔ آئیں نا لڈو کی گرما گرم بازی ہو جاۓ۔ بڑے دن ہو گۓ اپ کو شکست سے دوچار ہوۓ۔" بالوں کی کس کے ہائی پونی بناۓ' چلتی کم پھدکتی زیادہ یہ گڑیا سی لڑکی میری چھوٹی بہن ہے۔ میرے شاطر دماغ میں اچانک ایک کوند سی لپکی تھی ۔ میں نے جگمگاتی انکھوں کو سکیڑتے ہوۓاپنے مقصد نمبر چار کے لیے جلدی سے تانا بانا بنا۔
" تمہاری عقل کام کرتی ہے ہانی؟ شادی کے چوتھے روز میں لڈو کھیلتا اچھا لگوں گا کیا؟"
" لیکن شادی کے چوتھے روز لڈو کھیلنا منع ہوتا ہے کیا؟" اور اچھا لگنے کی کیا بات ہے۔ میں کونسا اپ کو چلچلاتی دھوپ میں پکڑن پکڑائی کھیلنے کو کہہ رہی ہوں جو اپ کا حسن موسم کی سختی کو نہ سہتے ہوۓ ماند پڑ جاۓ گا۔"
" اف۔۔۔۔ یا الہی!" میں دانت پیس کر رہ گیا۔ " فورتھ ائیر میں پہنچ گئی ہواور عقل نام کو نہیں تم میں ۔ تمہاری نئی نویلی بھابی کے بھی کچھ ارمان ہوں گے۔ وہ بیچاری نہ جانے کتنے خواب انکھوں میں سجاۓ اس گھر میں آئی ہے۔ اب اسے کہیں باہر گھمانے لے جانے کی بجاۓ یہاں نٹ کھٹ بچوں کی طرح لڈو کھیلنا مناسب لگتا ہے کیا؟" میں نے دھیرے دھیرے اپنا جال بچھانا شروع کیا تھا۔
" ارے واہ کیف بھائی! کیا پتے کی بات کی ہے۔ میں ابھی سارا باجی کو کہتی ہوں' تیار ہو جائیں ' ان کے سرتاج ان کو باہر لے جانے کے لیےبے تاب ہو رہے ہیں۔"
" اے خبردار! میرا کوئی موڈ نہیں ہو رہا کہیں جانے کا اور اس طرح کے چونچلے نہیں اٹھاۓ جاتے مجھ سے ۔ میں تو بس ویسے ہی بتا رہا تھا تمہیں کہ نئی نویلی دلہنوں کی کچھ اس طرح کی امنگیں ہوتی جو پوری نہ ہونے پر کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں۔ لیکن مجھے کیا۔" اس نے فورا پینترا بدلا تھا۔
" توبہ ہے بھا ئی! کیسے ظالم انسان ہیں' یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ کتنا نازک سا دل رکھتی ہیں زرا دل نہ کانپا اپ کا یہ کہتے ہوۓ کہ موڈ نہیں ہے۔ وہاں وہ بیچاری ٹوٹ کر بکھر جائیں گی اور اپ کو اپنے موڈ کی پڑی ہے۔" وہ مجھ پر ملامتی نظریں گاڑے کھڑی ہو گئی تھی۔
" میں ابھی کہتی ہوں ان سے کہ تیار ہو جائیں ' بھائی کو منانا میرا کام ہے۔"
" واہ جی ہو گیا کام ' سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔"
کچھ دیر بعد ہی وہ نک سک سے تیار امی اور ہانیہ کو ساتھ چلنے کی افر کر رہی تھی جو حسب توقع دونوں نے بڑے پیار سے ریجیکٹ کر دی تھی۔
" اوہو' ایک منٹ' وہ اپ کا موبائل تو اندر کمرے میں پڑا ہوا ہے میں لے کر اتی ہوں ابھی۔" تھوڑی دیر بعد ہی وہ ہاتھ میں کچھ تھامے کمرے سے نمودار ہوئی تھی۔
" یہ لیں اپکا موبائل اور سگریٹ۔" بڑے ناز سے اس نے موبائل اور سگریٹ کا پیکٹ میرے پھیلے ہوۓ ہاتھ پہ رکھا تھا اور میں ہکا بکا اس سچویشن کو ہضم کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اماں کی دل خراش چیخ اور سٹار پلس کے ڈراموں کی طرح ابا کی اچانک انٹری نے میرے اوسان خطا کر دیے۔ اف' مجھے تو یوں لگا میں ہاتھ میں سگریٹ نہیں شراب کی بوتل تھامے نشے میں دھت پکڑا گیا ہوں۔ اماں نے تو میرے جیسی نا عاقبت اندیش اولاد سے بے اولاد ہونا بہتر کروانا اور والد محترم نے بنا کسی لحاظ کے میری ذات کے پرخچے اڑاتے ہوۓ مجھے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں نہایت سنگ دلی سے دھکیلا اور تھوڑی دیر بعد ہی میں نئی نویلی دلہن کے سامنے اپنے والدین کے پاؤں تھامے چھوٹے بچے کی طرح گڑگڑا رہا تھا۔