SIZE
2 / 12

ان زریں مقاصد کو اپنے دل کی کوری تختی پہ لکھتے ہوۓ میں ٹارگٹ تک پہنچا تھا۔ حسب توقع وہ شرمائی لجائی پھولوں میں گھری بیڈ پر براجمان تھی۔

ایک ہفتہ پہلے ہی پڑھے ناول کے مغرور ہیرو کا کردار اپنے اوپر طاری کر کے میں نے اسے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ کلائی پر بندھی گھڑی اتار کے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھی' ہنکارا بھرا اور ایک لمبی سانس خارج کرتے ہوۓ ڈریسنگ روم میں گھس گیا۔

" اب یقینا اس کا دل سوکھے پتے کی طرح لرز رہا ہو گا۔" میں کمینی سی خوشی محسوس کرتے ہوۓ کپڑے بدلنے لگا۔ ہتھوڑے کی پہلی کاری ضرب میرے سازشوں سے بھرے سر پہ تب پڑی جب اس کے سامنے بیٹھتے ہوۓ نہایت سرسری انداز میں میں نے اس کی تعریف کی۔

" اچھی لگ رہی ہو۔" لہجہ میرا کسی ماہر تجزیہ نگار جیسا تھا۔ نظریں بمشکل اس کے چہرے سے ہٹا کے اپنے پھڑکتے ہوۓ دل کو سنبھالا اور اور ابھی مین نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ سگریٹ اور لائیٹر کی تلاش شروع کی ہی تھی کہ اس کی چہچہاتی اواز نے میرے پلان نمبر ون کا ستیاناس کر دیا۔

" اپ تو بہت ہی بھولے ہو۔ بھئی بیس ہزار کا میک اپ تو کوئی چمارن بھی کرا لے تو وہ خوب صورت ہی دکھے گی۔ اصل حقیقت تو تب کھلنی ہے جب میں نے اس دو کلو کے ماسک کو دھو کے اپ کے سامنے آنا ہے۔ ڈر کے مارے بے ہوش بھی ہو سکتے ہیں خیال رکھیے گا۔" میری انکھوں کے سامنے تو گویا تاروں سے لے کر اڑن طشتریوں تک سب ناچنے لگے۔

ناول میں تو ہیروئیں کی انکھوں میں جلتے ہوۓ دیپ ایک دم ماند پڑ گۓ تھے۔ یہاں تو میرے اپنے منصوبے ماند پڑتے دکھائی دے رہے تھے ۔ بہرحال گرتے ہوۓ حوصلوں کو جلدی جلدی سمیٹنے میں پلان ٹو تک پہنچا۔ سگریٹ سلگاتے ہوۓ میں نے کن اکھیوں سے اسے دیکھا جو نہایت دلجمعی سے کمرے کا جائزہ لینے میں مصروف تھی۔

" ہونہہ! ابھی میرے ہاتھ سے سیگریٹ چھینتے ہوۓ ائندہ کبھی اس لعنت کو ہاتھ نہ لگانے کی قسمیں دینے لگے گی۔۔۔ اف یہ لڑکیاں بھی نا" دل ہی دل میں مسکراتے میں نے زندگی میں پہلی بار سگریٹ سلگایا تھا۔

بڑی ترنگ میں میں نے ہنکارا بھرتے ہوۓ لمبا سا کش لگایا اور میری پھٹی ہوئی انکھوں کی پتلیاں اس طرح سے ساکت ہوئیں کہ ایک بار تو لگا کہ عالم نزع ہے۔ سینے میں جیسے کسی نے تازہ تازہ پسی ہوئی سرخ مرچوں کے بڑے بڑے انجکشنز لگا دیے ہوں۔ جال میں پھنسے پھڑپھڑاتے بے بس پرندے کی طرح اندھا دھند ہاتھ چلاتے میں اوندھے منہ بیڈ سے گرتا چلا گیا۔ کارپٹ پہ لوٹ پوٹ ہوتے ہوۓ کھانسنے میں میں نے اپنے نوے سالہ دادا محترم کو بھی مات دے دی۔ قلقل کرتی ہنسی میرے کانوں پہ چانٹے کی طرح چٹاخ سے پڑی تھی۔

تین دن پے در پے ناکامیوں کے تھپڑ کھاتے میں لہولہان ہو چکا تھا۔ نہ جانے کیسا چکنا گھڑا تھی' وہ یا پھر میری بد نیتی میرے معصوم ارمانوں کا خون کرنے میں تیز دھار چاقو کا کام کر رہی تھی۔ اخر چاہا ہی کیا تھا میں نے تھوڑی سی دیوانگی ' تھوڑا سا پاگل پن۔ خیر ہمت مرداں مدد خدا اور میری منصوبہ بندی میں تو ہمت نہ ہارنے کا عہد جلی حروف میں درج تھا۔