SIZE
1 / 12

" دیکھو تو ایسے رویا نہ کرو۔ جب انسو تمہاری انکھوں سے نکلتے ہوۓ ان گالوں پر لڑھکتے ہیں نا تو میرے دل پر جیسے کھولتا ہوا پانی گرنے لگتا ہے آبلے ہی آبلے پڑنے لگتے ہیں۔"لہجے کو آخری حد تک درد ناک بنانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہاں کمال بے نیازی تھی۔

" اتنا پاگل پن اچھا نہیں ہوتا پگلی! اب آفس میں دیر سویر تو ہو جاتی ہے نا!"

" کیا اول فول بولے جا رہے ہیں آپ؟ ایک تو آئی جیل لگاتے ہوۓ انگلی نجانے کیسے انکھ میں جا گھسی' انسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے' اوپر سے اپ پتا نہیں کون سی کہانیاں سنا رہے ہیں ۔" فراٹے لیتی زبان نے دھڑا دھڑا ارمانوں سے سجے محل مسمار کیے تھے۔

" کیا ہوا؟ ایسے منہ کھولے کیوں کھڑے ہیں۔۔۔۔۔ اوہو دیکھیے تو سہی' کہیں میری انکھ ہی تو بہہ کے نہیں نکل گئی۔"

"اف'اپ کا چہرا دھندلا سا ہو کے عجیب ڈراؤنا سا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔ ہاۓ میری انکھ۔۔۔۔"

" ایسی انکھ تو نکل ہی جاۓ تو اچھا ہے جس کو اتنا حسین چہرا ڈراؤنا لگ رہا ہے۔" دل ہی دل میں تلملاتا وہ غصے سے تن فن کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔

میں اپنے ہی ارمانوں کا ستایا ہوا ایک دکھی خاوند ہوں بلکہ یوں کہیے نیا نویلا خاوند ہوں۔ فطرتا مجھ میں نظم و ضبظ کچھ اس طرح کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے( بقول میرے اپنے) کہ میں ہر کام مکمل منصوبے کے ساتھ کرنے کا عادی ہوں ۔ ایسا ہی ایک لائحہ عمل میں نے شادی سے چند دن قبل ترتیب دیا کہ کس طرح میں نے شمع کا کردار ادا کرتے ہوۓ اپنی نصف بہتر کو اپنا پروانہ بنانا ہے۔ اس لائحہ عمل کے چیدہ چیدہ نکات د رج ذیل تھے۔

نمبر ایک' کچھ اس طرح اس کو متاثر کرنا ہے کہ وہ ساری زندگی اپنی قسمت پر رشک کرتی رہے کہ اس نے میری شکل میں کیسا انمول ہیرا پایا ہے۔

نمبر دو' اسے پہلے ہی دن اپنا ایسا دیوانہ بنانا ہے کہ زرا سا جو میں نظروں سے اوجھل ہو جاؤں تو وہ جلے پیر کی بلی کی طرح چکراتی پھرے۔

نمبر تین' رعب و دبدبہ ایسا کہ میں دن کو بھی کہوں کہ دیکھو وہ سامنے چاند ہے تو وہ کہے " جانو! ایک نہیں دو چاند ہیں' ایک وہ اسمان پہ اور ایک میرے سامنے۔"

نمبر چار' کچھ اس طرح اسے عدم تحفظ کا شکار کرنا ہے کہ وہ ہر وقت مجھے اپنا بنانے کی تگ و دو میں نڈھال ہوتی رہے۔