" ہاں۔۔۔ کل میں کام پر نہ آ سکا مگر بڑے صاحب اپنا کوئی بندا بھیج دیتے اپ۔۔۔۔ اپ نے زحمت کی میرے غریب خانے پر ۔۔۔ اماں نے تو صرف باتیں ہی کی ہوں گی۔" وہ فکر مند سا ہو گیا۔
" بندے صرف خدا کے ہوتے ہیں ۔۔۔ بڑے صاحب کے ہاں کام کرتے ہیں وہ غلام نہیں اور مجھے انہوں نے نہیں بھیجا میں خود ائی تھی۔ تم کام سے کوتاہی نہیں کرتے ۔ کل کی غیر حاضری میرے دل کو پریشان کر رہی تھی۔ سوچا تمہاری خیریت پوچھ آؤں ۔" ان وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھی۔
" بی بی! بندے بے شک خدا کے ہی ہیں۔ مگر ہر اک کی اپنی اہمیت ہے۔ مجھ غریب کا حال پوچھنے کو اپ ائیں مہربانی مگر اچھا تھا اپ کسی اور کو بھیجتیں ' بڑے صاحب کو علم ہو گا تو خفا ہوں گے اپ پر۔"
دل کی بات وہ ٹال گیا۔ اسے خود ڈر لگنے لگا تھا' اب تو وہ بالکل ویسے ہی باتیں کرتی تھی جیسے پربھات کرتی تھی۔۔۔۔ تم اداس ہوتے ہو تو میں بھی ہو جاتی ہوں۔۔۔۔ اور کبھی وہ کہتی کہ میں بہت پریشان ہوں مانک! جب مانک کی طبیعت خراب ہوتی۔( اسے بچپن سے سانس کی تکلیف تھی) دھول مٹی میں کام کرنے کی وجہ سے اور بڑھ جاتی وہ چند گھریلو نسخے ازما کر چند دن ارام کرتا ' پھر روزی کی تلاش میں نکل جاتا۔ تب کی بات اور تھی جب باپ کے مرنے کے بعد وہ خود شیشہ گری اور چتر گاری سیکھ رہا تھا' اس کے ہاتھ اگر زخمی ہوتے تواس کی انکھیں پانیوں سے بھر جاتیں۔ وہ بہت باتیں نہیں بھی کہتی تھی۔ مگر وہ سمجھتا تھا کہ ان انکھوں میں اس قدر پانی کیوں چڑھ ایا ہے۔ اسے اپنے زخم کی نہیں اس کی انکھوں کی فکر ہوتی۔
" تم رویا مت کرو پربھات۔۔۔ دیکھو تمہاری انکھیں کتنی حسین ہیں اور ان کے گرد کتنے بڑے بڑے حلقے نمایاں ہو گئے ہیں۔" وہ فکرمندی سےاس کو ائینہ دکھاتا اپنی انکھوں میں اور خود اپنے سارے زخم بھول جاتا تھا۔
" تمہیں پتا ہے تمہاری ماں نے بڑا مزیدار ساگ پکایا تھا اور ہاں مجھے روٹی پکانا بھی سکھائی ۔ یہ دیکھو۔۔۔۔ اب پہلے پہل تو ایسا ہوتا ہے ناں۔۔۔۔" اس کو خیالوں کی دنیا سے نکالتے ہوۓ اپنی جلی ہوئی انگلیاں فخر سے دکھائیں۔
" اف ۔۔۔۔ بی بی! اپ کو کیا ضرورت ہے ان جھمیلوں میں پڑنے کی اپ کے ہاں روٹی پکانے والے دس دس کک موجود ہیں۔"
" ان کی روٹی میں اتنا ٹیسٹ کہاں ہوتا ہے مانک! مجھے تو اپنے ہاتھ کی روٹی کھا کر مزا ہی آ گیا۔ حالانکہ وہ بہت جل بھی گئی تھی۔ مگر پھر بھی۔۔۔۔ اپنے ہاتھ کا ذائقہ اپنا ہوتا ہے۔ میں اگلے سنڈے کو انے کا وعدہ کر ائی ہوں۔ اب کی بار زبردست روٹیاں پکا کر دکھاؤں گی تمہیں۔ تم بھی کھا کر بتانا۔" وہ بڑی پر جوش سی ہو کر اسے بتانے لگی۔
اس کا جی چاہا سر دیوار پر ہی دے مارے۔
" بی بی۔۔۔! اپ کیوں ہم غریبوں کے پیچھے پڑی ہیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوۓ ہیں مجھے کام پر انے کو۔۔۔۔ بڑے صاحب کیا سوچیں گے اخر۔" اس نے کچھ تو بھڑاس نکال ہی لی تھی اور کچھ ان کہی رہنے دی۔