" اماں بہت ہیں۔"
" کیسے بہت ہیں' ہزاروں کام ہیں۔ اج کل تو فرنیچر ہی دو لاکھ روپے سے کم نہیں اتا پھر کھانا۔ کپڑا' برتن ڈھیروں سامان کیسے پورا کروں گی ۔"
" اپ نہیں اماں! اللہ پورا کرے گا ۔ ہم انسان مٹی کی بنی مخلوق ' بھلا ہماری کیا اوقات ہم کچھ کر سکیں۔ اللہ کرے گا۔"
اس نے ہاتھ تھام کر تسلی دی۔ اماں نے بیٹی کا چہرہ دیکھا وہاں امید تھی۔ ایمان کی نرم روشنی تھی۔
" تو اتنی پر سکون کیسے رہ لیتی ہے اصباح! کسی بات کی فکر ہی نہیں ہوتی۔"
" اپ کی دعا سے۔" وہ مسکرائی بے ریا' خوب صورت مسکراہٹ اس کے لبوں پر سجی تھی۔ " بس اپ دعا کرتی رہنا۔" وہ بونڈز اٹھاتے ہوئے بولی۔ " اماں یہ کب لیے تھے؟"
" سال بھر ہو گیا ' تیری خالہ نے کہا تھا پیسے جمع کرنے کی بجائے بونڈ لے لو' شاید بچیوں کے نصیب سے کھل ہی جائے۔" اصباح نے بونڈ تاریخ دیکھی حساب لگایا۔ سال سے اوپر ہو گیا تھا۔ ان کو گنا تو لگ بھگ لاکھ روپے کے تھے۔
" اماں اپ نے زکوۃ نکالی۔"
" زکوۃ !" ہمارے پاس باون تولہ چاندی یا سات تولہ سونا جو زکوۃ نکالوں ۔" اماں حیران ہوئیں۔
" باون تولہ چاندی کے برابر کی رقم تو ہے ناں اپ کے پاس سال بھر سے ' اس میں سے نکالیں۔"
" پاگل ہوئی ہے' ہم زکوۃ والے کب سے ہو گئے۔ یہ تو امیروں کے لیے حکم ہے۔"
" نہیں اماں! جس کے پاس نصاب کے برابر رقم ہو اور سال بھر تک پاس رہے' اس پر زکوۃ لازم ہے۔ ہم پر فرض ہے۔ اور دو لاکھ ہمارے پاس ہیں لگ بھگ سال بھر گزر گیا ہے۔ اب ہمیں اس کا چالیسواں حصہ نکالنا ہو گا۔ ایک لاکھ پر ڈھائی ہزار۔ اس طرح دو لاکھ پر پانچ ہزار روپے نکال دیں۔"
" میں رقم جوڑ رہی ہوں اور تم اور کم کر دو۔" اماں ناراض ہوئیں۔
" اماں! اللہ کا مال ہے ' اسی کا حکم ہے' میرا یا اپ کا کیا سوال؟ اور میں یہ کم نہیں کر رہی ہوں ۔ محفوظ کر رہی ہوں۔ نا گہانی افت سے ' لوٹ مار اور چوری سے مال کا میل نکال کر پاک کر رہی ہوں۔ برکت حاصل کرنے کے لیے یہ ایک لاکھ پچانوے ہزار بھی ہمارے لیے کافی ہوں گے۔"
" تو نے ٹھیک سے پتا کر لیا ہے نا۔" اماں کو ابھی تک کھٹکا تھا۔
" جی اماں ! مجھے پتا ہے۔" اس نے مسکرا کر کہا۔
" اچھا پھر بونڈز میں سے مت لینا۔ کھلے پیسوں میں سے نکال لے۔"اماں رضا مند ہو گئی تھیں' اصباح پیسے گننے لگی۔
" اتنے سارے پیسے۔" عشا نے خوشی سے چیخ ماری۔ " کس کے ہیں؟"
" پڑوسیوں کے۔"
"ہیں وہ ہونق ہوئی۔
" مطلب زکوۃ کے ہیں۔"
" کس کی زکوۃ۔" وہ مزید حیران ہوئی۔
" ہماری۔"