" اچھا' ہم زکوۃ دینے جتنے امیر ہیں۔" وہ اشتیاق سے بولی۔
" اللہ کے کرم سے۔"
" یہ اپ کس کو دیں گی؟"
" شرعی فقیر کو۔"
" شرعی فقیر! وہ تو میں بھی ہوں۔ میرے پاس نصاب نہیں ' مجھے دے دیں۔"
"اچھا۔ زکوۃ کب فرض ہے یہ نہیں پتا۔ شرعی فقیر کا پتا ہے۔ ندیدی قوم۔" اصباح نے گھورا۔ وہ ڈھٹائی سے ہنسی۔ ' اماں یہ پیسے رضیہ بھابی کو دے دیتی ہوں۔ بے چاری سارا سال لوگوں کے نئے کپڑے سیتی ہے اور خود اور بچے پرانے کپڑے ہی پہن کر عید منا لیتے ہیں۔"
" ٹھیک کہتی ہو بیٹا۔" اماں نے تائید کی ۔ کمرے میں پر نور سی روشنی اتر ائی تھی جو کسی مجبور کی مدد کرنے اور اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔"
رمضان کی مبارک ساعتیں خطہ ارض کو رونق بخش رہی تھیں۔ ہر ہر گھڑی میں مسلمانوں کے لیے رحمتیں ' مسرتیں اور برکتیں تھیں۔سحری کا مبارک وقت' موذن کی سحری کرنے کے لیے روزہ داروں کو جگانے کی ہدایات۔ نعمتوں کی اوازیں' درود کی خوب صورت اوازیں ماحول کو پر فسوں بنا دیتیں۔ اس نے پڑھا تھا کہ فجر سے پہلے کے وقت ماحول اتنا پر سکون اور ہوا خوش گوار کیوں ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے اس وقت فضا منافق کی سانسوں کی بو سے بوجھل نہیں ہوتی۔ اصباح خدا کے حضور سر بسجود تھی کہ اس نے ایک بار پھر اپنی رحمت سے برکتوں اور مغفرتوں والا مہینہ عطا کیا تھا جس کا ایک ایک پل قیمتی انمول ہیرے سے بھی زیادہ اہم تھا۔ ہیرے کا متبادل تو شاید مل جاۓ مگر ان برکت بھرے لمحات کا کوئی نعم البدل نہیں۔
سحری کے بعد نماز سے فارغ ہو کر عشا اور صبغہ تو سو گئیں' اماں اپنے وظائف میں مشغول ہو گئیں اور اصباح کے سکول کی چھٹیاں تھیں سو وہ کچن صاف کر کے برتن دھو کر چھت پر آ گئی' جون کے مہینے میں بھی ایک خوشگوار سی صبح اپنا کر رہی تھی۔ یہ رمضان کے پہلے روزے کی رحمت تھی۔ عشرہ رحمت شروع ہو چکا تھا۔ پر نور سی سفیدی' سیاہی کو شکست دینے کے بعد فاتحانہ انداز میں ہر سو پھیل رہی تھی۔ وہ تلاوت بمعہ ترجمہ اور تفسیر پڑھا کرتی تھی۔ اس کی حلاوت ہی الگ تھی۔ تلاوت سے فارغ ہو کر وہ دعا مانگنا نہ بھولی۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور زندگی کی جنگ کے لیےہتھیار بے حد ضروری تھے۔ " اک روز ہو گا جانا سرکار کی گلی میں۔" موبائل فون سے نعت کی اواز ابھری۔ اس نے فون اٹھایا' لبوں پر دھیمی سی مسکان پھیل گئی۔
" السلام علیکم"
" وعلیکم السلام"
" ماہم حسین سے بات ہو سکتی ہے۔" انداز شرارت سے پر تھا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اس کی اواز نہیں پہچان پاتا۔
" جی نہیں' وہ گھر پر نہیں۔ اپ بعد میں فون کر لیجیے گا۔" اس نے بھی شوخی سے جواب دیا۔
" چلیں اپ ہی بات کر لیں' اپ کی اواز بھی بری نہیں ہے۔"
" فلرٹ کر رہے ہیں۔" اس نے انکھیں نکالیں۔ وہ ہنس پڑا۔