" سارا پاکستان ہی یہ کام کر رہا ہے۔" عشا منمنائی۔
" سارا پاکستان نہیں چند لالچی ' ندیدے اور بے ضمیر لوگ۔" اس نے ٹوک دیا۔ یہ لوگ پاکستانی عوام کی ایک بھیانک تصویر پیش کر رہے ہیںکہ ھم میں کوئی اخلاق نہیں' کوئی رواداری نہیں' کوئی احترام نہیں۔ ھم مانگنے والی ' چھینا جھپٹی کر کے کھانے والی قوم ہیں' میرا دل جلتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ باہر کے لوگ میرے وطن عزیز کے لوگوں کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔"
" اتنے بڑے بڑے انعام ملتے ہیں۔" صبغہ کی سوئی وھیں اٹکی ہوئی تھی۔
" ٹھیک ' کبھی موقعہ ملے تو جانا اماں کو بھی لے جانا' جب وہاں بندروں کی طرح اچھلنے والا مداری اماں سے ٹھمکے لگواۓ تو ضزور تالیاں بجوانا ' ہو سکتا ہے اماں کا ڈانس انہیں فریج دلوا دے۔" دونوں نے تصور میں اماں کو ٹھمکے لگاتے دیکھا تو جھرجھری ہی آ گئی۔
" توبہ۔" دونوں کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
" ہاں! توبہ ' اللہ سے توبہ کرو ' اس کا کرم چاہو۔ سب مسائل حل ہو جائیں گے ۔ میری شادی ہے' مجھے فیس کرنا ہو گا۔ جب مجھے فکر نہیں تو تم کیوں ہلکان ہوتی ہو۔ چلو شاباش پڑھائی کرو۔ اللہ سب ٹھیک کر دے گا۔" اس کا ایمان مضبوط تھا۔ وہ دونوں سر ہلاتی اٹھ گئیں۔ مگر عشا حسرت بھری نظروں سے ٹی وی کی طرف دیکھنا نہ بھولی۔
" میڈم یہ درخواست۔" اس نے مودب انداز میں درخواست بڑھائی۔
" کس چیز کی ۔"
" میڈم تین ماہ بعد میری شادی ہے۔"
" اوہ! اچھا۔" ان کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
" رمضان المبارک میں تو سکول بند رہے گا۔ اس کے بعد مجھے نوکری چھوڑنا ہو گی۔ اور سکول کے قوانین کے مطابق مجھے ایک ماہ پہلے اطلاع دینی تھی۔ اس لیے بتا رہی ہوں ۔"
" بہت مبارک ہو اصباح! اپ بہت قابل ٹیچر ہیں۔ سکول اپکی خدمات یاد رکھے گا' نکاح ایک مقدس فریضہ ہے اور جتنی جلدی ہو اتنا ہی اچھا ہے ۔اللہ برکت ڈالے۔ اور سارا کام خوش اسلوبی سے ہو جاۓ۔"
" تھینک یو میڈم! دعاؤں کی مجھے ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔" وہ مشکور سی اٹھ گئی۔
سکول سے گھر ائی تواماں کو الماری کھولے پایا۔ وہ اپنی تمام متاع حیات نکالے بیٹھی تھیں۔ اصباح کو دیکھ کر انکھیں جھکا لیں' بولیں نہیں' اصباح عبایہ اتارے بغیر ان کے پاس بیٹھ گئی۔ " کیا بات ہے اماں؟"
" کچھ نہیں!" ان کا انداز مجرمانہ تھا۔
" بتائیں ناں کیا ہوا؟"
" صرف دو سال ' اس طویل عرصے میں بچت کرنے پر بھی صرف دو لاکھ ہی جمع کر پائی میں اصباح۔"