" تو کیا کروں ' کچھ سمجھ میں نہیں اتا۔ بقر عید کے بعد تیری شادی ہے' پلے کچھ نہیں ہے۔ خالی ہاتھ رخصت کر دوں تو تیری ساری زندگی خاک کر دیں گے سسرال والے۔ باپ کونسی جائیدادیں چھوڑ کر گیا ہے ' یہ ایک گھر ہے جس کو ادھا کراۓ پر دینے کے بعد ہم چاروں ماں بیٹی اس ڈربے سے کمرے میں گزارا کرتے ہیں ۔ تمہاری تنخواہ اور کرایہ ملا کر کس مشکل سے مہینۃ کھینچتی ہوں۔ ساری زندگی کی بچت صرف تم پر لٹا دوں' تو بھی پورا نہ پڑے۔ پیچھے دو پہاڑ اور ہیں۔ ان کو کیسے دھکیلوں گی ۔" اماں کی انکھوں میں انسو اگۓ۔ عشا' صبغا دونوں نے اپنے کام چھوڑ کر اماں کے گرد گھیرا ڈال دیا ۔ اصباح نے ان کے ہاتھ تھام لیے۔
' سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ اللہ مہربان ہے' اس پریقین رکھیئے ' وہ ضرور کوئی راستہ نکالے گا۔" مگر کب اور کیسے' ان کی انکھوں میں سوال تھا ۔ جس کا اصباح کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ کمرے میں ایک اداس روح کو تڑپا دینے والی خاموشی در آئی تھی۔
ٹی وی پر شو چل رہا تھا۔ لوگ ایک دوسرے پر جھپٹتے' دھکے دیتے لمبے ہاتھ کر کر کے بھکاریوں کی طرح انعامات لوٹنے میں مصروف تھے۔ ہوسٹ جلدی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتاتو وہاں اودھم مچ جاتا' مرد و عورت ' جوان و بوڑھے کی کوئی تفریق نہ تھی۔
بھوکے گدھوں کی طرح سب مردار پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ مال مفت تھا تو دل تو بے رحم ہونا ہی تھا۔ یہ بے رحمی ہر سو عیاں تھی۔ مائیں چھوٹے بچوں کو آگے کرتیں ۔ وہ اوازیں لگا لگا کر گفٹ کی بھیک مانگتے۔ اور جس کو مل جاتا وہ پھولے نہ سماتا۔۔۔۔ مگر لالچ ۔۔۔ لالچ کی سیاہ پٹی چہرے مسخ کر رہی تھی۔ اپنا گفٹ چھپا کر دوبارہ گفٹ لینے والوں کی صف میں کھڑے ہو جاتے۔ گنگا بہہ رہی تھی، سب کو ہاتھ دھونے تھے' کیوں کوئی بے ثمر رہتا۔
" عشا مت لگایا کرو ایسے بے تکے اور گھٹیا پروگرام۔" اصباح نے ٹی وی نظر جمائے ذوق و شوق سے دیکھتی عشا کو منع کیا۔
" اپی دیکھیں تو۔۔۔۔ اس عورت نے پانچ تولہ سونا جیتا ہے اور ایک ادمی کو دو بائیکس مل گئیں اور۔۔۔" وہ جوش سے بتانے لگی تھی اصباح نے ہاتھ بڑھا کر ٹی وی بند کر دیا۔ ٹی وی بھی ابا کے دور کا تھاجو ریموٹ سے کم اور تھپڑوں سے زیادہ چلتا تھا۔
" اپی بند کیوں کر دیا؟" وہ روہانسی ہوئی۔
" میں اپنے لوگوں کی اس سے زیادہ تزلیل نہیں دیکھ سکتی۔"
" تزلیل کی کیا بات ہے۔ فری میں یتنے گفٹ جاتے ہیں۔۔۔۔یہ تو خوش قسمت ہیں۔" صبغہ بولی۔
" خوش قسمت اور یہ لوگ۔۔۔ہونہہ۔" اس کے انداز میں تمسخر تھا۔ " یہ لوگ کٹھ پتلیاں ہیں' یا مداری کے بندر جو ڈگڈگی پر رقص کرتے ہیں' مداری ڈگڈی بجا کر جو حکم دیتا ہے' بجا لاتے ہیں' بوڑھے عمر رسیدہ اپنی عمر کا لحاظ نہ کرتے ہوۓ الٹے سیدھے ہاتھ پیر مار کر رقص کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ مل جاۓ۔ اپنے ہاتھوں چہروں کو کھانے کی چیزوں سے لتھیڑ لیتے ہیں کہ ھم جیت جائیں اور کچھ مل جاۓ۔ ہر حکم بجا لاتے ہیں۔ لڑکیاں اپنی نسوانیت کی پروا کیے بغیرحیا کے پردے چاک کر کے مداری کے حکم پر کبھی بل کھاتی ہیں' کبھی گنگناتی ہیں' رقص کرتی ہیں کہ کچھ مل جاۓ۔ اور مل بھی جاتا ہے مگر اس وقت لمحہ بھر کے لیے بھی یہ غور کیا کہ رب کریم کو کیسا جلال آ رہا ہو گا۔ جو سب کچھ دینے پر قادر ہے اس کی بجاۓ لوگوں سے مدد بلکہ مدد بھی کیا بھیک مانگنا اسے کتنا ناراض کرتا ہو گا۔" اصباح نے دونوں کو لتاڑا۔