ٹوں ۔۔۔۔ ٹوں کی مسلسل اواز پر اس نے جھنجھلا کر فون پٹخا۔ "آے ہاۓ کیا ہو گیا ہے۔" اماں نے لپک کر 3310 کو یوں سینے سے لگایا جیسے ان کے جگر کا ٹکڑا ہو۔
" ٹوں ٹوں سن کر کان پک گۓ ہیں اماں۔ گھنٹہ بھر سے بیٹھی ہوں۔ مگر کوئ کال ہی ریسیو نہیں کر رہا۔ لگتا ہے سب سندھ گورنمنٹ کی طرح بھنگ پی کر سو رہے ہیں۔" وہ سخت غصے میں تھی۔
" میری بچی کوشش کرتی رہ۔ کامیابی ضرور ملے گی۔ اتنی اسانی سے نہیں ملتا نمبر' محنت کرنی پڑتی ہے۔" اماں نے صبغہ کو پچکارا' وہ منہ بناتی پھر سے نمبر ملانے لگی۔
" اور تو۔۔۔۔ وہ عشا کی طرف متوجہ ہوئیں۔
" تیرا کچھ کام ہوا۔" وہ چارلز بیبج کے ایجاد کردہ پہلے ماڈل مارک ون کے چھوٹے بھائی سے نبرد ازما تھی۔
" اماں ونڈو ہی نہیں کھل رہی۔" اس نے بے بسی سے اطلاع دی۔
" کیا؟" اماں کے سر سے گزر گیا۔
"اماں یہ پوری نیلی پٹی بھرے گی تو نمبر والی جگہ نظر آۓ گی ۔" اس نے اماں کو سمجھایا۔ اماں کی آنکھیں چیونٹی کی رفتار سے رینگتی ٹیب پر جم گئیں۔ " آۓ ہاۓ یہ سستی ماری تو ہل ہی نہیں رہی۔" کافی دیر نظر جمانے سے اس کا دماغ ضرور ہل گیا تھا۔
" یہ کیا ہو رہا ہے۔" اصباح سینٹر سے لوٹی تو سب کو مصروف پایا۔
" کچھ نہیں اپی! بس ویسے ہی۔" عشا اور صبغا دونوں اس کے غصے سے واقف تھیں۔ سو فورا اپنی مصروفیت پر پردہ ڈال دیا۔ مگر وہ سب سمجھ گئ۔ کان سے فون لگاۓ صبغا ' زمانہ قدیم کے کمپیوٹر پر نظر جماۓ عشا اور امید کے ساتھ دونوں کے چہرے تکتی اماں۔
" اماں اپ پھر ان کی فضولیات میں پڑ گئیں۔ میں نے کتنی بار منع کیا ہے۔ یہ سب بیکار چیزیں ہیں۔ اپ کو میری بات سمجھ کیوں نہیں اتی۔" وہ تھکی تھکی سی بیڈ پر بیٹھ گئ۔
" فضول کیوں ہے۔ عشا کی سہیلی ۔ رابعہ کے نصیب کیسے کھلے تھے۔ ارے سات لاکھ روپے کی گاڑی اور دو لاکھ روپے کا دلہن کا سامان ملا تھا۔ اور بائیک وہ تویوں بانٹتے جیسے ریوڑیاں ۔ لوگ پاگل ہیں جو ان کے پروگرام میں جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ چلو سنی سنائی ہو تو مان بھی لوں۔ یہ تو انکھوں دیکھی ہے۔ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ کیا پتا کوئی خیر ہو جاۓ۔ "
" کرم تو ہوتا ہی ہے اللہ کا ۔ اس کے کرم کا دروازہ ہم پر کب بند ہوا ہے' اپ کیوں مایوس ہوتی ہیں۔"