" کم از کم اج کا دن تو دے دیں۔" اس نے التجا کی ۔
" ٹھیک ہے' کل ویسے بھی اتوار ہے۔ دوپہر کے کھانے پر ملاقات ہو گی اور اس وقت تک کوئی گھر سے باہر نہیں جاۓ گا۔"
" دادا جان ! چاۓ۔۔۔۔" دادا جان اٹھنے والے تھے کہ عارفہ چاۓ کی ٹرے لے کر آ گئی۔
" جیتی رہو۔ اس وقت چاۓ کی بہت طلب ہو رہی تھی۔" دادا جان نے عارفہ کے سر پر ہاتھ پھیرا ' جوان کی لاڈلی تھی۔
اس نے اہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر اس طرح داخل ہوا کہ کسی کو پتا نہ چلے۔ نیم کمرے میں اہستہ سے اس نے قدم رکھا اور ارد گرد نظر دوڑائی ' کسی کو دیکھنے کے لیے ۔۔۔۔ کمرے میں عجیب سماں تھا۔ نیم تاریکی' سلو موشن میں چلتا ہوا پنکھا۔۔۔ دھیمے سروں میں محمد رفیع کی اواز میں چلتا ہوا گانا۔ " اپنی انکھوں میں بسا کر کوئی اقرار کرو۔" اور دروازے کی طرف پشت کیے' رولنگ چئیر پر بیٹھی انکھیں بند کیے جھولتی ہوئی وہ۔۔۔۔
اسے اس کی امد کا پتا ہی نہیں چلا اور چلتا بھی کیسے' وہ اتنے دھیرے سے دبے پاؤں تو ایا تھا اندر۔۔۔ کمرے میں گوونچی کی اتنی تیز خوشبو تھی جیسے پورے کمرے میں پرفیوم کو انڈیلا گیا ہو۔ وہ۔۔۔۔۔ آ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ اسی طرح آنکھیں بند کیے جھول رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کی بھیگی پلکوں سے لگ رہا تھا کہ وہ روئی ہے۔ اسے بہت افسوس ہوا۔ وہ دبے قدموں اسی طرح واپس جانے لگا ۔ جب محمد رفیع کے بول نے اس کے قدم روک لیے۔
میں نے کب تجھ سے زمانے کی خوشی مانگی ہے
اک زرا سی میرے ہونٹوں نے ہنسی مانگی ہے
اور اس پر نکلتی ہوئی اس کی سسکی ' جس سے پتا چلا کہ وہ جاگ رہی ہے' لیکن اسے اپنی موجودگی کا احساس دلاۓ بغیر وہ باہر نکل گیا۔
" سوری عارفہ! باتوں میں خیال ہی نہیں رہا وقت کا' اتنی دیر سے کہہ رہی تھی کہ کچن میں آ کر تمہارے ساتھ کچھ پکا لوں۔۔۔ لیکن دادا جان کے ڈر کی وجہ سے اٹھی نہیں۔" وہ سلاد کاٹ رہی تھی ' جب تائی جان کچن میں داخل ہوئیں۔
" کوئی بات نہیں تائی! میں سمجھتی ہوں مسلے کو۔۔۔ اپ کا وہاں ہونا بہت ضروری ہے۔ ویسے بھی لوگ زیادہ تھے' تو میں نے دوپہر سے تیاری شروع کر دی تھی۔ بریانی اور قورمہ بنا دیا تھا۔ ساتھ میں ایک سبزی بھی بنائی ہے' میٹھے میں کھیر بنا کر فریج میں رکھ چکی ہوں۔ اب بس یہ سلاد اور رائتہ باقی ہے اور نان بازار سے منگوا لیں گے۔" تائی نے شکر گزار نظروں سے اسے دیکھا اور ساری ڈشیں چیک کیں جو بہت لزیز بنی تھیں۔
" ویسے کچن کو صاف ستھرا دیکھ کر میرے ہاتھ پیر پھول گۓ تھے کہ اب تک کچھ نہیں بنا۔۔۔ لیکن یہ سب تمہاری سلیقہ مندی ہے کہ کام کرتے ہوۓ بھی تم سے کوئی چیز ادھر ادھر یا گندی نہیں ہوتی۔۔۔۔ تمہارے نصیب بہت اچھے ہوں' رضیہ بہت قسمت والی ہے جسے تم جیسی بیٹی ملی ہے۔"
" کون ہے قسمت والا۔۔۔!" شہیر کچن کے دروازے میں آ کر کھڑا ہو گیا۔