اس نے بڑی خموشی سے پلیٹوں کو اہستہ اہستہ دھویا اور ریک پر ٹکا دیا۔ پھر کپڑا لے کر کاؤنٹر صاف کرنے لگی ' لیکن اس کی توجہ کچن سے زیادہ لاؤنج سے انے والی اوازوں پر تھی۔ جو بہت صاف سنائی دے رہی تھیں۔
لاؤنج جو لاؤنج کم اور کمرہ عدالت زیادہ لگ رہا تھا۔ جہاں ملزم ایک تھا' لیکن جج ایک نہیں تھا بلکہ پورا بینچ بیٹھا تھا۔ دادی' خالہ ' پھپھو ' تائی ' امی' دادا' چاچو' چاچی۔۔۔ خالو اور پھوپھا کو بے خبر رکھا گیا تھا' کیونکہ عزت کے معاملے کو اج بھی بیٹی کے سسرال والوں سے چھپا کے رکھا جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کے کہ انہیں غیر سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اس لیے کے وہ طعنہ مارنے اور غیر ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ ارڈر دادا کے تھے اور اج کی عدالت بھی ان کے کہنے پر سجائی گئی تھی۔
اور ملزم کے کٹہرے میں بے چارا اکلوتا شہیر ' اکیلا کھڑا تھا ۔۔۔نہ وکیل۔۔۔ نہ گواہ۔۔۔نہ حمایتی ۔۔۔ بلکہ سارے دلائل اور گواہ اس کے خلاف تھے بقول شاعر۔۔۔۔
تمہارا شہر تم ہی مدعی ' تم ہی منصف
ہمیں خبر ہے ہمارا قصور نکلے گا
اور قصور تو واقعی اس کا نکلا تھا۔ صرف قصور نہیں جرم۔ ایسی غلطی جہاں سے واپسی کا کوئی تصور نہیں' بس سمجھو کہ گۓ اور پھنس گۓ۔ وہی غلطی جو پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو ہٹا کے کی تھی اور پھر سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا ۔ بے چارا شہیر !! ایک لمحے کو دل بہت دکھی ہوا اس کے لیے۔۔۔
وہ تھا بھی تو سب کا لاڈلا لیکن کیا کر سکتے تھے سب' معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
" برخوردار! اس طرح چپ رہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔۔۔ ہمیں حتمی فیصلہ چاہیے اور وہ بھی ابھی۔۔۔" یہ گھمبیر اواز دادا جان کی تھی۔
" لیکن دادا جان! یہ نا انصافی ہے۔" شہیر چیختے ہوۓ بولا۔
" کیسی نا انصافی۔۔۔؟" دادی بھی اسی کے انداز میں بولیں۔ " اور کچھ کرنا باقی ہے ابھی۔"
" مجھے کچھ تو وقت دیں۔" وہ شرمندہ سے لہجے میں بولا۔
" کتنا وقت! ہمارے پاس وقت ہی تو نہیں ہے۔" دادا کی اواز اب بھی گرج دار تھی۔