SIZE
3 / 8

" رضیہ جسے عارفہ جیسی بیٹی ملی ہے۔ میں نہیں جسے تم جیسا بیٹا ملا۔۔۔ جس کی وجہ سے اتنی بد نامی ہو رہی ہے۔" تائی کی اواز بھرا گئی۔

" کیسی بدنامی! یہ سراسرزیادتی ہے اماں کہ محض الزام کو بدنامی کہہ رہی ہیں۔ ابھی جرم مجھ پر ثابت نہیں ہوا۔ " شہیرچڑتے ہوۓ بولا۔

" جرم بھی ثابت ہو جاۓ گا۔ کل کا سورج تو چڑھ لینے دو۔" تائی تپ کر بولیں۔

" پھر کل رو لینا آپ اور مجھے بھی مار دینا۔۔۔ بس آج کے دن جان بخش دیں میری۔۔۔۔" تائی پیر پٹختے ہوۓ باہر چلی گئیں۔

" مجھے کھانا یہیں دو۔۔۔۔ ان لوگوں کے طعنوں میں مجھ سے کھانا نہیں کھایا جاۓ گا۔"

" جاوید منزل۔۔۔" دادا جان کا محل تھا' جسے انہوں نے حق حلال کی کمائی سے بنایا تھا اور اتنی گنجائش رکھی تھی کہ ان کی دو تین نسلیں اس میں بہ اسانی رہ سکیں اور ان کے کسی بیٹے ' بہو کو جگہ کی تنگی کی وجہ سے انہیں چھوڑنا نہ پڑے۔ اپنے تین بیٹوں کی بھی شادی کر چکے تھے۔ اب تو ان کی اولادیں بھی جوان ہو چکی تھیں۔۔۔۔ لیکن دادا جان نے ان سب کی ایسی تربیت کی تھی کہ سب میں بہت اتفاق تھا اور ایسا ماحول رکھا کہ کسی کو ایک دوسرے کے خلاف سازش یا بات کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ وہ حقیقتا ایک مثالی گھر کے مثالی سربراہ تھے۔

بڑے بیٹے زبیر ان کی بیوی جمیلہ اور دو بچے ' شہیر اور فائزہ ' دوسرے بیٹے احمد ان کی بیوی رضیہ اور تین بیٹیاں ' عارفہ' صائقہ اور نمل۔۔۔ چھوٹے بیٹے فائق ان کی بیوی عائشہ اور بچے کاشف۔۔۔ شعیب ' ہانیہ اور مروہ اسی طرح تینوں پھوپھیوں کی اولادیں ان کے سمیت جب جمع ہو جاتیں ' گھر میں شادی کا سماع لگنے لگتا۔ آس پڑوس میں " جاوید منزل" کو " خوش حال گھرانے" کے نام سے جانا جاتا تھا۔

وہ خاموشی سے اس کے سامنے کھانا رکھ رہی تھی۔ کیونکہ غصے میں اسے برتن مارنے کی بری عادت تھی۔

"سنو عارفہ!" وہ فریج سے کھیر نکالنے جا رہی تھی جب شہیر نے اواز دی۔

" جی۔۔۔" وہ واپس مڑی۔

" یہ میرے کمرے میں برتھ ڈے گفٹ کس نے رکھا ہے اور وہ بھی بے نام۔"

" مجھےکیا پتا' میں تمہارے کمرے میں تھوڑی جاتی ہوں۔ ویسے بھی بقول دادی تمہاری روز سالگرہ ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی لڑکی تمہیں گفٹ بھیجتی ہے ۔" شہیر نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔

" تم سوچ لو کہ یہ ڈیٹ کس کو بتائی تھی تو پتا چل جاۓ گا۔" عارفہ نے تجویز دی۔

نہیں یہ میری ایگزیکٹ ڈیٹ ہے۔" اور اگلے لمحے وہ شرمندہ ہوا جیسے خود اعتراف کیا کہ باقی لڑکیوں کو غلط ڈیٹ بتا ئی ہے۔۔۔ عارفہ نے مسکرا کر کھیر اس کے سامنے رکھ دی۔

" جس دن اس ڈفر کا پتا چلا قسم سے چھوڑوں گا نہیں۔"

" کس ڈفر کو۔۔۔۔؟"