اسے اپنے شوہر کی پے پرواہی پر کڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اگلے دو ماہ میں عمار کے توسط سے بہت سی باتیں اسکی علم میں آئیں تھیں
اور ان میں سے سب سے تکلیف دہ بات رضا حسین کا اس سے فیئر نہ ہونا تھا.
اس روز وہ بہت روئی لیکن اس نے رضا حسین پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا. رفتہ رفتہ اسکے مزاج میں تبدیلی آنے لگی تھی. پہلے وہ رضا کے
قریب رہنے کے بہانے ڈھونڈھتی تھی اب اسکی قربت سے بھاگتی تھی.
وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اسے کیا ہوتا جا رہا ہے.
صرف اسکی خوشی کے لئے اس نے اپنی مصروفیات تک کم کر دیں مگر پھر بھی وہ خوش نہیں تھی. اب تو اس نے الگ گھر کا بھی مطالبہ کر دیا تھا.
رضا اسکی ہر بد تمیزی خاموشی سے سہ جاتا تھا مگر یہ مطالبہ ماننا اس کے لئے ازحد شرمندگی کا باعث تھا. یہی وجہ تھی کہ اس نے بہت
پیار سے اسے اس مسئلے پر سمجھانے کی کوشش کی تھی. مگر وہ نہیں منی تو اس نے اسکو اس کے حال پر چھوڑ دیا.
حریم شاید یہی چاہتی تھی.
دونوں کے بیچ بات چیت بند ہوگئی تھی. اس نے اپنا بستر بھی رضا سے الگ کر لیا تھا اسکے سارے کام بھی ملازمہ پر ڈال دے تھے. وہ اسکی
حرکتوں سے کتنا ہرٹ ہو رہا تھا اسے پرواہ نہیں تھی. عمار اب اس سے ملنے لگا تھا.
وہ شخص اپنی باتوں اور لفظوں میں جتنا خوبصورت تھا. حریم کو حیرت ہوتی تھی کہ اتنا خوبصورت مالدار ہونے کے باوجود اس جیسی بظاھر
عام سی لڑکی کو کتنی اہمیت دے رہا ہے. کیسے ہر ہر بات میں اسکی تعریف کرتا ہے. اسے پیار دیتا ہے اسکا خیال رکھتا ہے.
وہ اپنے نصیب پر جتنا بھی رشک کرتی کم تھا.
اس روز موسم بہت سرد تھا. صبح ہسپتال جانے سے پہلے رضا نے اسکو منانے کی کوشش کی تھی، مگر اس نے اس کوشش کو کامیاب ہونے نہیں دیا.
اگر وہ اس سے صلح کر لیتی تو الگ کمرے میں کیسے سوتی؟ اور ساری رات جگ کر اپنے محبوب سے اسکی من پسند باتیں کیسے کرتی؟
رضا مایوس لوٹ گیا تھا. پچھلے ایک ہفتے سے اسکی نیند اور خوراک متاثر ہو رہھی تھی. اسکی ماں نے اس سے کہ دیا تھا کہ وہ حریم کی بات
ماں لے وہ دونو بوڑھے میاں بیبی اکیلے رہ لیں گے مگر وہ نہیں مانا تھا اسکو یقین تھا حریم کا غصّہ جلدی ڈھل جاتے گا اور وہ اسکی بات مان
لے گی. رضا کے ہسپتال جانے کے بعد وہ اپنی ساس کے منع کرنے کے باوجود عمار سے ملنے چلی گئی. موسم خوبصورت اور سرد تھا مگر
من پسند ہم سفر کے ساتھ اس کا حسن مزید دوبالا ہوگیا. صرف اسکی فرمائش پر عمار نے اسکو پورا شہر گھمایا تھا.
اب شام ڈھلنے لگی تھی. واپسی کے سفر میں اس نے اس سے پوچھا تھا.
"عمار! آج نہیں تو کل تمہاری شادی ہو جاتے گی ممکن ہے جو لڑکی تمہاری زندگی میں تمہاری بیوی کی حثیت سے آئے تم اسے مجھ سے زیادہ
چاہنے لگو. اگر ایسا ہوا تو کیا تم مجھے بھول جاؤ گے."
"نہیں! میں شادی ہی نہیں کروں گا".
"گھر والوں نے مجبور کیا تب بھی نہیں"؟
"نہیں! مجھے کوئی مجبور نہیں کر سکتا".
"اچھا اگر میری شادی نہ ہوئی ہوتی تو کیا تم مجھ سے شادی کرلیتے"؟
"شادی ہوگئی تو کیا ہوا، میں جسموں سے محبت کا قائل نہیں ہوں. یہ تم اچھی طرح جانتی ہو".
مکمل توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کے اس نے سنجیدگی سے جواب دیا. حریم کے دل پر ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی فرط جذبات میں اس نے عمار
کا بایاں بازو اپنے بازؤں کے حصار میں لیتے هوئے اپنا سر اسکے شانے پر ٹیکا دیا