"بھابھی! خدا کا خوف کریں. کہاں پھنسوا رہی ہیں؟ آپکو نہیں پتا کتنی مشکل سے جان چھڑوا کر آیا ہوں اور عافیہ مامی اس قدر بولتی ہیں. پوری کی
پوری سی آئی ڈی ہیں". ماہم بے اختیار اسکی بات پر ہسنے لگی.
"ارے! میں آپکو اپنی داستان غم سنا رہا ہوں اور اپ ہنسے جا رہی ہیں". اس نے چہرے مسکینیت طاری کی.
"دیکھیں! ابھی مجھ سے کیا سوالات کر رہی ہیں. "اچھا تو بیٹا اکیڈمی جاتے ہو."؟ اب وہ انکی نقل اتارتے ہوے بتا
رہا تھا. "تو وہاں لڑکیاں بھی ہیں؟ اچھا کتنی لڑکیاں ہیں؟ خوب سنور کر آتی ہوں گی؟تم بھی پرفیوم چھڑک کر جاتے ہوگے؟
روز دھلا ہوا سوٹ پہنتے ہو یا ایک دن بعد بدلتے ہو؟ شمپو کتنے دن بعد کرتے ہو؟"اف میرا تو سر چکرا گیا. پلیز بھابھی
میری اچھی بھابھی. میری سویٹ بھابھی! آپ کوئی ور کم کہ دیں میں دل و جان سے کروں گا.
"لیکن خدارا! وہاں جانے کو مت کہیں." اب وہ سینے پر ہاتھ رکھے ماہم کے آگے جھکے اپنی تبعداری کا یقین دلانے لگا.
"اچھا اچھا یہ ڈرامہ بند کرو. میں خود اٹھا لوں گی. میرا مزید وقت خراب مت کرو." وہ اپنی ہنسی دباتے ہوے میز سے برتن اٹھانے
چلی گئی.
کھانے کے برتن اٹھا کر میز صاف کیا. پھل پیش کے اور چاۓ بنانے لگی.
"ماشااللہ آپکی بہو نے تو سارا گھر سمبھالا ہوا ہے". وہ چاۓ اندر لے گئی تو مامی نے تبصرہ کیا. وہ وہیں بیٹھ کر چاۓ پیالیوں میں
نکالنے لگی.
"ہاں بھی! جس دن سے آئی ہے ہم نے تو پورا گھر اسکے سپرد کر دیا ہے." رضیہ بیگم نے کہنا شروع کیا. "آج کام زیادہ تھا،اس لئے
ناجیہ کو کہ کر بلوا لیا کہ بھابھی کا ہاتھ بٹا دے. ورنہ بہو کے معاملات میں روک ٹوک نہیں کرتی میں. جسی مرضی پکاتے، کهاے،
رکھے، ڈھانپے. میں نے واقع کبھی خبر نہیں رکھی. اب جب سے ناجیہ کو بیاہا ہے، سیاہ و سفید کی مالک ہے".
"ہاں! یہ تو واقع آپکا بڑا پن ہے. ورنہ کہاں ہوتا ہے ایسا. اپنی راج دھانی کسی کے ہاتھ دینا آسان تو نہیں ہے."چاۓ سب کو تھما کر
باہر نکل آئی کہ کام ابھی باقی تھا.