SIZE
4 / 7

"چلے گی" وہ بے اختیار چلائیں اور بل خر کٹ تنتناتے هوئے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھورا.

"یس ماما چلے گی بلکے دوڑے گی سو پلیز". اسکی آنکھیں شرارتی انداز میں مسکائی تو انہوں نے بھرپور غفگی کا تاثر دیتے هوئے رخ

پھیر لیا.

اسے رد ہونے سے جتنا دار لگا کرتا تھا اسی قدر ریجیکشن..........تقدیر نے اسکے نصیب میں لکھ دی تھی. یہ اسکا نصیب تھا

یا قسمت کا کوئی چکر جو بھی تھا بہرحال وو بہت ہرٹ ہو چکی تھی اور بہت چوٹی عمر سے آزمائشوں میں گھر گئی تھی. ماں

باپ کے درمیان چپقلش رہتی اور پھر ایک دن دونوں نے راہیں علیحدہ کر لیں.

وہ اکلوتی تھی اسکے باوجود دونوں گھروں میں اسکی کوئی جگہ نہیں تھی باپ نے دوسری شادی رچا کر اپنی دنیا بسائی تھی تو

ماں نے اپنی، ور دونوں کی یہ دنیا اتنی مکمل تھی جس میں اسکی کوئی گنجائش نہیں تھی. کبھی ادھر کبھی ادھر رہ کر بچپن گزر

کر جوانی آگئی تھی.

اسے بچپن سے ہی پینٹنگ کا شوق تھا، ڈرائنگ اتنی اچھی بناتی تھی کہ پھلے اسکول کی ناک چڑھی اور سٹوڈنٹس سے ہر وقت

نالاں رہنی والی ٹیچرز اسکی ڈرائنگ اور خطاطی کو سراہے بغیر نہ رہ پاتیں. اسی تعریف نے جذبے کو تقویت دی وہ اور لگن

سے کام کرنے لگی. بڑی ہوئی تو اسکے پنسل سکیٹچ کے لا تعداد نمونے جمع ہو چکے تھے. جسے خیر خواہ کے مشورے پر

اس نے نمائش میں رکھوا دیا، لکن اسکے فن پاروں کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جسکا اس نے سوچا تھا.

یہ پہلی کی بعد دوسری اور پھر تیسری ریجیکشن تھی اور اس روز دل کی دھرتی پر سیاہ گھنیری گھتایں اتریں اور دھرتی جل تھل ہوگئی

کچھ آنسو دل پر گرتے اور سوراخ کر دیتے. اس نے تمام اثاثے اٹھا کر بکس میں رکھے اور تالا دال دیا کبھی نہ کھولنے کے لیے.

وہ بزدل تھی نہ کم ہمت بس رد ہونے کی اذیت سہنے کی تاب نہ رکھتی تھی مگر جب رد ہونا لکھا جا چکا ہو تو کوئی کیا کرے.

وہ بڑی ہو چکی تھی. باپ اس سے غفل تھا اور ماں جلد از جلد اس سے جان چھڑا لینا چاہتی تھی. ہر تیسرے دن کچھ لوگ

اسے دیکھنے چلے آتے اور اسکی ذات میں بہت سی خامیاں نکل کر چلتے بنتے ہر بار آنسو دل پر گر کر سوراخ بناتے جاتے.

انہی تکلیف دہ لمحات کی اذیت کو سہتے اسکے زرخیز دماغ نے ایک اور کرشمہ دکھایا زندگی کے جبر وے تلخیوں کا صفہ

قرطاس بیکھرا تو کنتے ہی زخم نظمیں بن گئیں. ایک دن اسکی دوست نے پڑھا تو ہمّت افزائی کے ساتھ انکو چھپوانے کا بھی مشورہ

دے دیا وہ ہی جانے کس دھن میں تھی نظام لکھ کر معروف رسالے کے پتے پر ارسال کر دی مگر نتیجہ پھر ووہی ریجیکشن. اس نے

دل برداشتہ ہوکر قلم سے ناتا توڑ ڈالا.

"ایسا کیوں کیا تم نے" سہیلی کو پتا چلا تو حیرت سے چلائی.