مجھے بلآخر یہی کرنا تھا جلد یا بدیر. اسنے جلتے ہوے کاغذات کے پلندے پر نظریں گاڑھے ٹوٹتے بکھرتے جذبات جیسے تناؤ کا شکار
هوئے تھے پھر کچھ دن بعد ایک لمبی سی گاڑی انکے گھر کے دروازے کے باہر آکر رکی. ماں اسے بتا چکی تھی کہ آج کچھ لوگ اسے
دیکھنے آنے والی ہیں. بے دلی سے سہی وہ اپنی نمائش کو تیار تھی، وہ خاتون پڑھی لکھی سوبر اور بااخلاق اور وہ مرد بھی خوش حال
اور مہذب نظر آے تھے.بہت اچھے انداز میں انکو ملے انکو کافی ڈھارس ہوئی ان لوگوں کے اخلاق میں اپنا پن تھا.
چلو اچھا ہوا اگر یہاں بات طے ہو جاتے. ججن تو چھوٹے گی اس روز روز کے عذاب سے. اس نے سوچا تھا. ورنہ اس سے قبل تو
انے والی نہ اسکے سوال کا جواب دیتے تھے نہ کبھی اسکو کھانے میں شریک کرٹ بات کرنا تو دور کی بات تھی بہت انسلٹنگ رویہ
ہوا کرتا تھا.
اس دن اسنے پوری شدتوں سے نصیب جڑ جانے کی دعا مانگی. لیکن تیسرے دن اسکی ماں نے ان لوگوں کے انکار کا
بتا کر سن کردیا. کچھ انجانے سہانے سپنے جو ڈرتے ڈرتے اسکی آنکھوں نے سجاتے تھے مگر سجا تو لئے تھے. ان لوگوں کی
ہی امید دلانے پر پر ہی خوش فہمی وہ کرچیوں کی صورت میں اسکی آنکھوں میں زخمی کر گئے. وہ پھر رد ہوچکی تھی اسکی تکلیف
صرف اسکا الله جانتا تھا.
اپنے ہر شوق کو بار بار رد ہو جانے کی اذیت سے بچ جانے کی خاطر ترک کر دینے والی ریجیکشن سے اپنا دامن کس طرح بچاتے کش
کوئی تو ایسا ہوتا جو اسکو پہلی ہی نظر میں قبول کر لیتا اسکے دل نے بہت بےبسی سے یہ چاہا اور اسکی یہ خواہش برسوں بعد اسکے
بیٹے نے پڑھ لی اور دل کے سب سے اہم حصّے میں سمبھال کر رکھ لی.
گاڑی کو زور دار جھٹکا لگا تھا. اسکی نوک مژگاں پر ٹھہرا جگنو ڈھلک کر گال سے ہوتا ہوا گریبان میں گم ہوگیا.