سعیدہ کو ابھی بھی اسکے الفاظ اسی طرح یاد تھے. جس طرح کسی بچے کو "امی" لفظ یاد ہوتا ہے. لیکن کتنا عجیب اتفاق تھا جب آج
اٹھائیس سال بعد فریدہ سے ملاقات ہوئی تو وہ آزاد نہیں تھی بلکے سلاخوں کے پیچھے تھی.
سعیدہ نے اسکے بعد کے واقعات پڑھنے شروع کئے.
پاکستان بن گیا اور پاکستان بننے کی قیمت فریدہ نے اپنے باپ کی شہادت ماں کے ایک بازو بھائیوں کی دو آنکھیں اور تیسرے کی زندگی
کی صورت میں دینا پڑی. لیکن وہ یہ صدمہ برداشت کر لیا اس لئے کہ وہ تو کہا کرتی تھی کہ ایک آزادی جس کے لیے اگر دس کروڑ
انسان کوشش کر رہے ہیں تو نو کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے انسانوں کی قربانی دے کر بھی صرف ایک انسان کو
آزادی مل جاتی ہے تو یہ ایک آدمی کی بہت بڑی کامیابی ہے. یہاں تو جانی نقصان کا اندازہ صرف لاکھوں میں تھا.
وہ شوہر اور اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوگئی جس وقت اسکا پہلا قدم پاکستان کی سرزمین پر پڑا اس نے وہیں
شکرانے کے نفل ادا کے اور الله سے دعا کی.
"اے خدا اگر ہمیں آزادی جیسی نعمت سے بہرا ور کیا ہے تو اسکی حفاظت بھی کرنا اور اگر کوئی ایسا دن آجاے کے مزید قربانی کی ضرورت
ہو تو میرا یہ بچہ اور جان سے پیارا شوہر اور میں تنو ہی حاضر ہوں گے" وہ سب کچھ لٹا کر آتے تھے. دیانت اور سچائی اسکی زندگی کا
سب سے بڑا اصول تھا. پھر وہ اپنے پیارے وطن، آزاد وطن کو کیسے دھوکہ دے دیتی. اس نے کوئی جعلی کلیم داخل نہیں یا اور نہ ہی کسی
دوسری قسم کا مفاد حاصل کرنا چاہا. حالانکہ وہ چاہتی تو اپنی خدمات کے صلے میں کچھ نہ کچھ ضرور لیتی. پھر بھی وہ اپنے آپ سے
سوال کرتی.
کیا! یہ مناسب ہوگا؟ اور میں نے یہ قربانیاں کسی لالچ کی خاطر تو نہیں دیں. میں نے تو صرف آزاد پاکستان مانگا تھا وہ مل گیا.
اسکے خاوند نے نوکری تلاش کرنے کی کوشش کی اگرچہ وہ بی اے پاس تھا. لیکن معقول سفارش نہ ہونے کے باعث اسکو کلرک کے بہتر
جاب نہ مل سکی. فریدہ نے پھر بھی خدا کا شکر ادا کیا اور غلیظ سے محلے میں ایک کمرہ کراتے پر لے کر رہنے لگے. جہاں زندگی مشکل
نہیں پاتی تھی.
فریدہ اسی اثنا میں مختلف رسائل و اخبارات میں لکھتی رہی آزادی کے موضوع پر لکھے هوئے اس کے افسانوں کو ادب میں بہت اہم مقام
مل چکا تھا. اور کبھی کبھی مختلف جلسوں میں شرکت کرتی رہی. لیکن حالات تلخ ہونے لگے. اس نے محسوس کیا کہ آزادی کا جو تصور اس نے
دیکھا تھا وہ پورا نہیں ہو رہا ہے. اسکے تین بچے بھی پیدا ہو چکے تھے.
ایک دن دونوں میں بیوی نے صلاح کی کہ یہاں سے مشرقی پاکستان جا کر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیا جاتے. اور وہ پندرہ سال
پیشتر مشرقی پاکستان داخل ہوگئے.