فریدہ اور سعیدہ دونوں ہی گورداسپور کی تحصیل بٹالہ میں موری دروازے کے پاس رہتی تھیں. ہمساتے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ
ہم جماعت بھی تھی جسکی وجہ سے انکی دوستی مزید گہری تھی. انکا اکثر وقت اکھٹے گزرتا دونوں جب دسویں جماعت میں تھیں تو
تحریک پاکستان اپنے پورے زور پر تھی. فریدہ بہت زور سے پاکستان بنانے کے حق میں بولتی تھی اور جب بھی سہیلیوں میں بیٹھتی
وہ قائد اعظم اور پاکستان بنانے کے حق میں بولتی تھی. ایک دو دفع تو ہندو سہیلیوں سے اسکی لڑائی ہوتے ہوتے بچی وہ پاکستان
کے بارے میں جذباتی ہو جاتی تھی اس کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارہ نہیں تھا جب کوئی اسکے خلاف بولتی تو وہ لڑنے مرنے پر
تیار ہو جاتی. یہ تو سیدہ کے سامنے کا واقعہ تھا.
تمہارے پاکستان میں کیا ہوگا؟ غربت، جہالت، ذلت؟ جیون مے اسے ایک دن کہ دیا.
"تم بکواس کرتی ہو. میرے پاکستان میں سکوں ہوگا.عزت ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تحریر اور تقریر کی آزادی ہوگی. ہمیں تم
ذلیل بنیوں کا محتاج ہونا پڑے گا.
فریدہ اتنی تلخ ہوگئی اسے سمبھالنا مشکل ہوگیا تھا سعیدہ اسے زبردستی فریدہ کو کھینچ کر دوسری طرف لے گئی ورنہ وہاں
نجانے کیا ہوجاتا. وہ ابھی تک غصّے میں سعیدہ سے بولی.
"دیکھو ان بانیوں انگریزوں نے مل کر ہمیں سالوں تک لوٹا ہے اور ابھی بھی ذلیل، کمینے، دغاباز اور مکار چاہتے ہیں ہم اپنا حق لینے
کے لیے بھی انکے سامنے دامن پھیلائیں. ہماری زبان مدتوں سے خاموش تھی ہمارے سوکھ گئے تھے ہم آزادی کے نام تک کو بھول
رہے ہیں کیا یہ لوگ ہم سے یہ نعمت بھی چھین لینا چاھتے ہیں.
وہ جذباتی انداز میں بولے جا رہی تھی سعیدہ اسکے اندر اٹھنے والے طوفان سے بے خبر اسکی ہاں میں ہاں ملاتے جا رہی تھی.
دوسرے ہی دن نے اسکول میں جلسہ کا اعلان کر دیا. ہندوؤں ......میں اس سے بہت اضطراب پیدا ہوگیا. لیکن چونکہ وہاں مسلمانوں
کی اکثریت تھی. اس لئے وہ کچھ بول نہیں سکیں. سعیدہ کو وہ جلسہ تا عمر یاد رہا.
فریدہ تو جسی آتشفشاں تھی جو پھوٹ پڑا. وہ بلا تکان بولتی رہی آزادی کی شان میں قصیدے پڑھتی رہی اور اس نے پاکستان کا جو
حسین تصور پیش کیا. وہ کسا بھی جنّت سے کم نہیں تھا. مسلمان لڑکیاں اس سے بہت متاثر ہوئیں اور وہ بھی اس پر جوش طریقے سے
جدوجہد آزادی میں حصہ لینے لگیں جلسے کے بعد سعیدہ نے اسے مبارک دی تو.
فریدہ نے اسکو اپنے گالی سے لگاتے ہوے کہا.
"سعیدہ یہ دوا کرنا اب جب ہم ملین تو آزاد ہوں"