SIZE
2 / 10

بالوں کی سفیدی اسکی عمر جوانی کے گزر جانے کی غماز تھی.

پھر اچانک وہ کچھ .بولنے لگی. لیکن سیدہ کے لئے وہ بولی کچھ نئی ہی تھی. غالباً وہ بنگالی بول رہی تھی. مگر اسکا لہجہ خالص بنگالیوں والا

نہیں تھا. سعیدہ خاموشی سے اسکو دیکھی رہی اور پھر اس سے رہا نہیں گیا.

"سنو! اسے پاگل جانتے هوئے بھی سعیدہ اس سے مخاطب ہوئی. اسنے گتنوں سے سر اٹھایا اور اپنے سامنے دیکھنے لگی. سعیدہ کا دل چاہا کے

سلاخوں کے اندر ہاتھ ڈال کر اسکا کندھا ہلاتے لیکن پھر ڈر گئی کہیں ایسا نہ ہو وہ ہاتھ اور کاٹ لے یا اس طرح اندر کھینچے کے بازو کی

ہڈی ہی ٹوٹ جاتے.

اے سنو! اسنے زور سے کہا اور عورت نے بیٹھے بیٹھے اپنا چہرہ گھما کر پیچھے کی طرف دیکھا. اسکی آنکھوں کی پتلیاں کچھ پھیلیں اور اسنے

غور سے سعیدہ کو دیکھا. سعیدہ کا چہرہ یکدم متغیر ہوا. اب وہ عورت اچھل کر اٹھ کھڑی ہوئی. وہ دونوں سلاخیں تھام کر بہت غور سے سعیدہ

کو دیکھنے لگی. سعیدہ اسکی آنکھوں کو جس میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی کو غور سے دیکھنے لگی. سعیدہ اسے پہچاننے کی کوشش کرنے

لگی. اس عورت کا چہرہ جو کے ادثات زمانہ نے اپنے دبیز پردوں میں چھپا رکھا تھا. لیکن پردے اتنے گہرے بھی نہ تھے کہ سعیدہ جیسی ذہین

لڑکی کے دماغ پر بھی چھا جایئں. اس نے ذھن پر تھوڑا سا زور دیا.

"تم فریدہ ہو"؟ سعیدہ نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے هوئے پوچھا.

"میں آزادی ہوں ڈاکٹر، جسکو تم نے غلام بنا رکھا ہے."

فریدہ مجھے پہچانو میں سعیدہ ہوں تمہاری پرانی دوست.

سعیدہ نے اس نفسیاتی اثر ڈالنا چاہا.

میرا کوئی دوست نہیں ہے. میری کوئی سہیلی نہیں ہے. میں غلام ہوں، اور کیا تم کسی غلام کو دوست بنانا پسند کرو گی.

وہ اچھی خاصی عقلمند لگ رہی تھی. سعیدہ نے اپنے شبے کو دور کرنے کے لیے اسکا چارٹ اور ہسٹری دیکھنی چاہی

وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی دفتر کی طرف چلدی اس کی ہسٹری پڑھنی شروع کردی یہ فریدہ ہی تھی، فائل دیکھنے سے اسکو

اتنا ضرور پتا چلا کہ اس بھی اسلم اسے ہسپتال میں چھوڑ گیا تھا اور وہ آج سے دس سال پیشہ کاروبار کی غرض سے بمعہ

اپنے خاوند اور دو بچوں مشرقی پاکستان چلی گئی تھی جہاں جاکر اچھا خاصا کاروبار شروع کر لیا تھا.

اور چٹاگانگ میں دو دکانوں کے ساتھ ساتھ ایک مکان کے ملک گئے تھے. سعیدہ کا اشتیاق بڑھا کہ اس کے حالات سے پوری

طرح آگاہی حاصل کرے.