سعیدہ تک تو پڑھ چکی تھی. اسکے بعد آگے کے حالات واضح نہیں تھے. وہ دوبارہ فریدہ کے چلدی فریدہ سو چکی تھی.
وہ کافی دیر تک وہیں کھڑی اسکے طرف دیکھتی رہی. اور پھر واپس آگئی.
رات بھر وہ سو سکی. وہ صبح بےچینی سے کرتی رہی. تاکہ فریدہ آتے تو اسکے حالات معلوم کر سکے. اس نے آفس
میں کہ چھوڑا تھا کے فریدہ کے کسی بھی ملاقاتی کو سعیدہ سے ملے بغیرنہ جانے دیا جاتے.
ابھی نو ہی بجے تھے کہ چپراسی نے بتایا.
"ڈاکٹر صاحب! کوئی کمرہ نمبر تین والی مریضہ سے ملنے آیا ہے".
" کون ہے مرد یا عورت"؟
"مرد ہے". چپراسی نے بتایا.
"ایسا کرو اسکو سیدھا میرے کمرے میں لے آؤ".
سعیدہ نے چپراسی کو ہدایت کی اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی.
"اسلام و علیکم ڈاکٹر صاحبہ"
ملاقاتی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا.
سلام کا جواب دیتے هوئے سعیدہ بغور آنے والے کے چہرے کی طرف دیکھا نقوش آشنا دکھائی دیتے تھے. وہ سعیدہ کے
چہرے کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا.
"آپ کا نام" سعیدہ نے سکوت کو ختم .چاہا.
"مجھے صفدر کہتے ہیں". اس نے جواب دیا اور سعیدہ کو یاد آیا صفدر فریدہ کا چھوٹا بھائی تھا جو کے بیشتر وقت ان ہی
کے گھر میں گزارا کرتا تھا.
"آپ فریدہ کے بھی ہیں نہ؟"
"جی ہاں"
،مجے نہیں پہچانتے آپ". میں نے کہا.
اس نے ایک دفع پھر ذھن پر زور دیا.
"لگتا ہے آپکو بہت دفع دیکھا ہے مگر یاد نہیں آرہا کہاں"؟
وہ جب کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تو شکست تسلیم کر لی.
"میں سعیدہ ہوں صفدر. ہمسائی اور فریدہ کی پرانی ساحلی".