SIZE
3 / 11

اماں کہتیں

’’یہ بیماری ہوتی ہے۔۔۔ہنسنا تو ہنستے ہی رہنا۔۔۔رونا تو روتے ہی رہنا۔۔۔جیسے ہچکی کہ جان لے کر ہی ٹلے۔۔۔‘

’’یہ ہنسی بھی جان لے گی کیا‘‘چھوٹی عذرا ہنس کر بولی۔

’’توبہ ہے اب تو اللہ نے نسلی بچے بنانے چھوڑ دیے ‘‘

اماں موت کے تذکرے پر ہول گئیں انکی پیاری بچی فجی ہنستی ہے ہنستی ہی رہے جان کیوں جائے اسکی۔

’’خود ہی تو کہا ہے ااماں!‘‘

’’ارے جا۔۔۔میں نے کچھ کہا تو کچھ سمجھی ‘‘

’’باجی زندہ رہے گی نا۔۔۔؟‘‘عذرا ٹلنے والی نہیں تھی اب

اس کا تو پکا ہے تیرے لئے دعا کرنی پڑے گی‘‘اماں نے جوتی اٹھائی

فجی کی سہیلی کی شادی ہوئی تو وہ روئی وہ روئی جیسے سہیلی بیاہی نہ گئی ہو جل کر مر گئی ہو خدانخواستہ ۔اسکے گھر والوں نے بھی کہا۔

’’اے فجی !اتنے بین نہ ڈال‘‘

اور فجی ’’وہ چلی گئی،مجھے چھوڑ گئی،وہ لے گئے‘‘کہہ کہہ روتی رہی ۔یہی دونوں سہیلیاں چھت پر چڑھ کر ایسے ایسے جناتی قہقہے پھر

پھراتیں کہ درو دیوار پھرا اٹھتے۔

خیر ولیمہ ہوا اور دلہن سہیلی گھر آگئی ،پھر قہقوں کی وہ قسم نکلی کہ بڑے بوڑھے کہہ اٹھے

’’یہ کیا بے غیرتی ہے چپ کراؤ انہیں۔‘‘

انھیں چپ کروانے کی ناکام کوشش کی گئی ۔

یہ وہی سہیلی تھی جس میں فجی کی پور پور جان تھی ۔نوعمری میں کہا کرتی تھیں ،ایک ہی گھر بیاہ کرجائیں گی،ذرا سالوں بعد پھر یہ بات کسی نے انکے منہ سے نہ سنی، نہ جاننے کی کوشش گوار ا۔

سنت نگر کے پرانی طرز کے گھر تھے۔بہت جگہوں سے ساتھ ملے ہوئے تھے۔چھتیں تو ایک ہی تھیں،کبھی بالکنی پھلانگ کر ،کبھی کھڑکی سے پانچ فٹ لکڑی کا زینہ اتر کر اور کبھی چھت سے چھلانگ لگا کر ایک دوسرے کے آیا جایا کرتیں ۔زیاد ہ تر اپنی فجی۔ایسے کہ چائے چولہے پر رکھی ہے اور اُبال آنے تک وہاں۔۔۔پریشکر ککر لگا ہے۔۔۔سیٹی بولنے تک وہاں۔۔۔ ناشتہ کیا چکر لگائے آئے،شام کا تفصیلی اعلانیہ پھیرا الگ سے ،درمیان کے بہانی حادثاتی پھیرے الگ سے۔۔۔بلکہ اہتما م سے۔۔۔

اماں پہلے تو بہت بڑ بڑائیں ،پھر جب اسی سے فجی نے سینا پرونا سیکھ لیا ۔کئی طرح کی کڑھائیوں کے ٹانکے سیکھ لیے اور طرح طرح کے ڈیزائن کے کپڑے ،چھوٹے بچوں کے تو ہزاروں طرح کے کہ خالہ ،ماموں، اور باقی کے قریبی رشتے داروں کے سارے بچوں نے اسی کے ہاتھوں کے سلے کپڑے پہنے ۔لہنگے،شرارے،فراکیں اس نے بڑی بچیوں کو بھی خوب سی سی کر دیں۔تو پھر یہ اعتراض اٹھ گیا کہ وہ ہر وقت دھنی کے یہاں کیوں گھسی رہتی ہے۔دھنی نے ہی اسے حلیم بنانا سیکھایا۔ہریرہ تک فجی نے اس سے سیکھ لیا۔تو ایسی استاد سہیلی پر جانثاری اماں کو خاص نہ کھلی۔جہاں اس نے فجی کو اتنے سارے گن سکھائے وہاں پھر پھرانا فجی سے سیکھ لیا۔خیر اس فن میں دونوں ہی استا دنکلیں ،مجال تھی کہ ایک بھی مات کھا کر پیچھے رہ جاتی۔ فجی ادھر اپنے خاندان میں مشہور تھی اور دھنی اُدھر اپنے خاندان میں۔

دھنی بیاہی گئی ،پھر بھی فجی وہاں پائی جاتی،چند مہینے گزرے سلیم نے کھڑکی بند کروادی،بالکنی کی طرف یہ بڑے بڑے لکڑی کے تختے لگوا دیے۔چھت کی دیواروں پر تین تین ردے چنائی کروائی اور کانچ لگوا دیا۔فجی خوب ہنسی۔

’’یہ دیواریں ۔۔۔یہ بندشیں۔۔۔یہ دیواریں۔۔۔‘‘