کہتی جاتی ہنستی جاتی،
اماں نے دھما دھم دھمو کے جڑئے۔۔۔
’’اب کیوں ہنس رہی ہے؟؟‘‘
’’بھیا نے بالکنی بند کروادی۔۔۔کھڑکی بھی۔۔۔اور وہ چھت۔۔۔‘‘
’’ہاں تیرے کرتوت دیکھ کر کیا سب۔۔۔‘‘
’’لو اماں اتنی سی بات نہیں سمجھتیں۔۔۔یہ اتنی سی چنائی کس کام کی۔۔۔‘‘وہ پھر دل لگا کر ہنسی۔
اوندھی کھوپڑی!کم ذات ہیں وہ،یاری دوستی تک تو ٹھیک تھا،باقی کا خناس نکال دے، یہ دمدمے (مصنوعی قلعے) بنانے چھوڑ دے۔
’’لو نکال دیا خناس۔۔۔خناس ہی تو نہیں گھسنے دیا دماغ میں۔۔۔دمدے بنائیں ہمارے دشمن۔ذات صرف اللہ کی انسان کی ذات اس کے اعمال ۔‘‘منہ سے پھرپھرکبوتر اڑے
انسان کے اعمال ہونہہ۔‘‘ اماں نے ایسے کہا جیسے کھتا الگ سے منہ میں انڈیل لیا ہو اور اب پان چبانے جا رہی ہوں۔
’’کتنی سمجھ دار ہوں میں اماں۔۔۔اتنی جلدی اتنی اچھی باتیں سیکھ گئی دیری نہ کرو۔۔۔سیکھ لو مجھ سے۔‘‘وہ پھرپھرانے لگی،اماں کیا چپا رہی ہیں ہیں اس کی جانے بلا۔
* * *
بڑے دن گزرے ڈھنگ کا رشتہ ہاتھ آیا نہ کھڑکی چھت کی چنائی میں دراڑ آئی۔
’’یہ تیرے انارکلی کے چکر بہت بڑھ گئے ہیں ُ ‘‘ اماں اس پر نظریں گاڑے پوچھ رہی تھیں۔
وہ چھیل چھبیلی بنی مسکرانے لگی جیسے کوئی یاد تازہ ہو گئی۔
’’لے کر بھی کچھ نہیں آتی۔‘‘
’’کوئی کپڑا جوتا پسند آئے تو لاؤں،دوبار توخالہ کیلئے گئی، انکی منی کے جوتے کا ماپ ٹھیک نہیں تھا۔‘‘
’’منا منی کے جوتے بھی تو ہی لاتی ہے اور ماپ بھی تو ہی غلط لاتی ہے فجی میرے قہر سے بچی رہ،ایک بار جو گردن جو پکڑی تو انارکلی والے ہی تماشا دیکھیں گے۔
’’جو تماشا لگے تو ایسے ہی سہی۔‘‘وہ ہنسی۔چھبیلا پن البتہ جاتا رہا۔
’’تیری اس ہنسی کا گلا تو میں دباؤں گی کسی دن دھیان سے رہیو۔۔۔‘‘
’’ماں ہو کر یہ کرو گی؟؟‘‘
پھر پھراتے کبوتر زمین پر آکر گرنے لگے ،اس کے اندازے سے ایک ایسی ہوک نکلی کہ اماں چپ اسے دیکھے گئیں۔