’’بہتیرے کروائے۔۔۔‘
’’کملی پگلی لگتی ہے لگتا ہے خاندان سے اس کارشتہ نہیں لینا تمہیں۔‘‘
’’اپنے باپ سے بھی مار کھاتی ہے پر منحوس ماری کی ہنسی ہی قابو میں نہیں جی جی مذاق اڑاجاتاہے اس کا۔‘‘
اس مکالمے کی نوبت ملتان والی پھوپھو کے بڑے بیٹے کی ڈھولک میں آئی تھی۔۔۔گھر بھر پڑا تھا۔۔۔کھلی یہ بڑی ساری چھت پر ڈھولک بجائی جارہی تھی۔۔۔لڑکیاں خوب چہک پہک رہی تھیں اور اپنی یہ فجی بھی۔۔۔
ایک لڑکی نے چٹکلہ چھوڑا۔
’’بڑے بڑے بیاہے گئے پیارے اللہ جی ہمیں بیاہنے والے کدھر کو گئے۔۔۔آ کے نہیں دے رہے۔‘‘
قہقوں کے مرغولے آسمان تک اڑے پھر پھس بھی گئے اور فجی۔۔۔
ڈھولکی بجانے والی پڑوس کی لڑکی نے ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ لیا،چٹکلے والی نے گردن موڑ کر دولہا کی بہن کو تاڑا ،آس پڑوس والیوں نے پھوپھی کی طرف دیکھا۔لو بھلا پھوپھی خود فجی کو دیکھ رہی تھیں وہ جو چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اماں نے بڑھ کر گھسیٹ کر اسے اٹھایا اور ساتھ لے کر نیچے چلی گئیں۔پھر ڈھولکی ذرا دیر سے بجی،اس دوران بڑی سرگوشیاں اٹھیں۔
’’کون ہے یہ رضیہ تمہاری؟‘‘
’’لاہور والے چھوٹے ماموں کی بیٹی۔‘‘رضیہ چڑ گئی۔
’’پاگل ہے کیا!‘‘
’’ہم کیا جانیں پہلے تو نہ تھی۔‘‘
’’توبہ ایسے ہنسنا۔۔۔؟‘‘
’’ہماری جانے بلا۔۔۔‘
گانے ،سہرے گائے جانے لگے۔اماں ساری شادی میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔سب طرح طرح کے سوال کرنے لگے ۔لاہور والوں کی تو خیر تھی سب ہی اسکی عادت سے واقف تھے بس یہ دُور دراز کے رشتے دار ہی حیران ہوتے پھر وہ بھی عادی ہوگئے۔
’’جنگلی پگلی پھر پھراتی فجی کے‘