لوگ اسے پُھرُ پھرا۔۔۔ پھرا کہتے تھے، اس کے منہ پر کہتے تھے۔۔۔ڈٹ کر کہتے تھے۔۔۔ڈرتے ورتے نہیں تھے۔۔۔اس سے کیسا ڈرنا۔جو جھلی ہو،پگلی‘ دیوانی سی ہو اس سے کیسی لجا۔۔۔تو لوگ اسے پھر پھر، پھرا کہتے تھے۔۔۔پورے سرتال کے ساتھ کس کر‘جم کر‘آواز لگا کر۔۔۔ردھم سے۔۔۔ترنم سے۔
نام اس کا فرزانہ تھا لیکن چونکہ عام رواج ہے اور خاصا مشہور اور دل پسند رواج ہے تو اس کے تحت وہ فجی بھی ہوگئی۔۔۔تو یہ فجی تو ہوا عرفی اور معاشرتی نام۔۔۔چلے رواجی بگاڑہی سہی۔۔۔اور پھر پھر۔۔۔پھرا۔۔۔یہ اس کی خصوصیت ،خاصیت۔۔۔مزاجی تہمت۔۔۔ذاتی فارمولا۔۔۔اس کی شخصیت کا حاصل جمع۔
ہنسی کی پہلی قسط ایسے نکلتی جیسے لاہور بھر کے کبوتر’’ پھر‘‘ سے ایک ساتھ اڑے ہوں۔۔۔دوسری قسط ایسے نکلتی (جو پہلی کے ہی عین پیچھے پیچھے چلی آتی)جیسے ان کبوتروں پر بجلی آن گری ہو۔۔۔اور اللہ ضرور ہی معاف کرے تیسری اور لگاتار قسط ایسے نکلتی جیسے لاہور بھر کی بلیوں اور بلوں نے ان کبوتروں پر حملہ کردیا ہو۔
بچے بچے کو معلوم تھا فجی کیسے ہنستی ہے تووہ ہاتھ جوڑ جوڑ کہتے۔
’’باجی جی !بس کردیں پھرپھرانا۔‘‘
اتنا سنتے ہی وہ اور لوٹ پوٹ ہو ہوجاتی ۔ایویں سی بات تھی لیکن کافی سنجیدہ بھی تھی کہ مائیں اسے تاکید کرتیں۔
’’اے فجی مناسورہا ہے۔۔۔ذرا قابو میں رہیو۔‘‘
مطلب ذرا دھیان سے، ہنسنا نہ شروع کردیؤ۔
اماں کو تو یاد کرنے سے بھی یاد نہ آتا کہ یہ بیماری اسے کب لگی۔خوش رہتی تھی نا۔۔۔اور خدا ہی جانے وہ کب سے خوش رہنے لگی تھی۔وہ اتنی انڈ بنڈ (اوٹ پٹانگ)کب سے ہوئی۔کئی سو لوگوں میں بھی اماں اسے ڈانٹ ڈالتی تھیں۔
’’چپ کر جاپگلی۔۔۔یکھ سارا زمانہ ہنس رہاہے۔‘‘
جواب میں دس بارہ فواروں کا ایک اور بڑا فوارہ نکلتا۔
اماں دوپٹے کا گولہ بنا کر اس کے منہ میں ڈھونس دیتیں،ذرا نہ رحم کھاتیں۔
’’کوئی جن ون تو نہیں۔‘‘اماں کی دُور کی چچی نے پوچھا۔
’’جن ہی ہوتاجان تو چھوٹتی۔‘‘
’’دم وم کراؤ۔۔۔‘‘