SIZE
4 / 7

"ماں جی ! آپکی نظر میں ایسا کوئی خوش نصیب نہیں تھا.". ہم انکو چھیڑنے کی خاطر پوچھا کرتے تھے.

"توبہ توبہ پت! ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں" میری نظر میں بھلا ایسا کوئی کیسے ہو سکتا تھا. ہاں میرے دل میں اتنی سی خواھش

ضرور تھی کہ ایسا آدمی ملی مجھے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہوگی".

ساری عمر میں غالبا یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی. اور اسکو خدا نے یوں پورا کیا کہ

اسی سال انکی شادی عبد اللہ صاحب سے ہوگئی.

اس دنوں سارے علاقے میں عبد اللہ صاحب کی طوطی بول رہا تھا. وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے مگر پانچ چھ برس کی

عمر میں یتیم بھی ہو گئے تھے اور بے حد مفلوق الحال بھی. جب باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جایئداد رہن

پڑی ہے. چناچہ عبد اللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں گھس آئے. زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر ایسی جایئداد بنانے کا

عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے. لہٰذا عبدالله صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے. وظیفے

پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹروکولیشن میں اول آئے. اس زمانے

میں غالبا یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا.

اڑتے اڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے. انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں

میں بھیجا اور عبدالله صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلوا لیا. یہاں آکر عبدالله صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے

کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچرار ہوگئے.

سر سید کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلاع ملازمتوں پر جائیں. چناچہ انہوں نے عبدللہ صاحب کو

سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان جاکر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں.

پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے. عبدالله صاحب کی والدہ نے انکو ولایت جانے سے

منع کر دیا. عبدالله صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی تو وظیفہ واپس کر دیا.

اس حرکت پر سر سید کو بے حد غصّہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا. انہوں نے لاکھ سمجھایا، بجھایا، ڈرایا، دھمکایا لیکن عبدالله صاحب ٹس سے مس

نہ هوئے.

"کیا تم اپنو بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو"؟ سر سید نے کڑک کے پوچھا.

"جی ہاں" عبدالله صاحب نے جواب دیا.

یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپے سے باہر ہو گئے. کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبدالله صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں

اور جوتوں سے پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخاست کر کے یہ کہ کر علی گڑھ سے نکلوا دیا. "اب تم ایسی جگہ جاکر مرو جہاں سے میں