تمہارا نام بھی نہ سن سکوں".
عبدالله صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے. نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام
گلگت نظر آیا. سو وہ ناک کی سیدہ میں گلگت پھنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے.
جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی. انہی دنوں عبدالله صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آے هوئے تھے. قسمت میں دونوں کا سنجوگ
لکھا ہوا تھا. انکی منگنی ہوگئی اور ایک ماہ میں شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبدالله صاحب اپنی دلہن کو ساتھ میں گلگت لے جایئں.
منگنی کے بعد ماں جی ایک روز اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاؤں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئیں تھیں. اتفاقا یا دانستہ عبدالله صاحب بھی
وہاں پہنچ گئے.
ماں جی کی سہیلیوں نے انہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کر پانچ پانچ روپے وصول کیے. عبدالله صاحب نے ماں جی کو بھی
بہت سے روپے پیش کیے. لیکن انہوں نے انکار کر دیا. بہت اصرار کیا تو ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کر دی.
"اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسوں کا کیا کرو گی". عبدالله صاحب نے پوچھا.
اگلی جمعرات کو آپ کے نام کا تیل مسجد میں ڈلوا دوں گی. ماں جی نے جواب دیا.
زندگی کے میلے میں بھی عبدالله صاحب کے ساتھ ماں جی لیں دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا. اس سے زیادہ
رقم نے انہوں نے کبھی مانگی نہ کبھی اپنے پاس رکھی.
گلگت میں عبدالله صاحب کے بہت شان و شوکت تھی. خوبصورت بنگلہ، وسیع باغ، نوکر چاکر دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ. جب عبدالله صاحب
دورے پر باہر جاتے تھے یا واپس آتے تھے تو سات توپوں کی سلامی دی جاتی تھی. یوں بھی گلگت کا گوورنر خاص سیاسی انتظامی اور
سماجی اقدار کا حامل تھا مگر ماں جی پر اس سارے جاہ و جلال کا ذرا بھی اثر میں پڑا. کسی بھی قسم کا چھوٹا بڑا ماحول ان پر اثر انداز نہیں
ہوتا تھا. لیکن ماں جی کی اپنی سادگی اور خود اعتمادی ہر ماحول میں خاموشی سے چھا جاتی تھی.
ان دنوں سر مالکم ہیلی حکومت برطانیہ کی طرف سے گلگت کی روسی اور چینی سرحدوں پر پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر
معمور تھے. ایک روز لیڈی ہیلی اور انکی بیٹی ماں جی کو ملنے آیئں. انہوں نے فراک پہنے هوئے تھے. اور پنڈلیاں کھلیں تھیں.
یہ بے حجابی ماں جی کو بلکل پسند نہیں آئی. انہوں نے لیڈی ہیلی سے کہا."تمہاری عمر تو جیسے گزرنی تھی گزر گئی. اب
عاقبت تو خراب مت کرو. یہ کہ کر انہوں نے مس ہیلی کو اپنے پاس رکھ لیا اور اس عرصے میں اسکو کھانا پکانا، سینا پرونا،
برتن مانجھنا، کپڑے دھونا سکھا کر ماں باپ کے پاس واپس بھیج دیا.
،جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو تو لارڈ کچر سرحدوں کا جائزہ کرنے گلگت آے. انکے اعزا ز میں ضیافت کا اہتمام کیا. ماں جی
نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکاتے. کھانے لذیز تھے. لارڈ کچر نے اپنی تقریر میں کہا. "مسٹر گوورنر، جس
خانساماں نے یہ کھانے پکاتے ہیں، برائے مہربانی میری طرف سے آپ انکا ہاتھ چوم لیں".
دعوت کے بعد عبدالله صاحب شاداں و فرحاں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی خانے میں ایک کونے میں چٹائی پر بیٹھی
چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہیں تھیں.