گھاس پھونس کی جھونپڑی بنائی اور بنجر اراضی میں ایک قطع تلاش کر کے کاشت کی تیاری کرنے لگی.
انہی دنوں محکمہ مال کا پڑتال کے لیے آیا. نانا جی کے پاس الاٹ منٹ کے کاغذات نہیں تھے. چناچہ نانا جی کو چک سے نکل دیا گیا.
اور سرکاری زمین پر جھونپڑا بنانے کی پاداش میں انکے برتن اور بسٹر قرق کر لیے گئے. عملے کے ایک آدمی نے چاندی کی دو
بالیاں بھی ماں جی کے کانوں سے اتروا لیں. ایک بالی اتارنے میں ذرا سی دیر ہوئی تو اس نے زور سے کھینچ لی. جس سے ماں جی کے
کان کا زیریں حصّہ بری طرح پھٹ گیا.
چک نمبر ٥٠٢ سے نکل کر جو راستہ نظر آیا اس پر چل پڑے. گرمیوں کے دن تھے. دن بھر لو چلتی تھی. پانی رکھنے کے لئے مٹی کا
پیالہ بھی پاس نہیں تھا. جہاں کہیں کوئی کنواں نظر آیا ماں جی اپنا دوپٹہ بھگو لیتیں تاکہ پیاس لگنے سے اپنے چوٹھے بھائیوں کو چستائی
جایئں. یوں ہی چلتے چلتے وہ لوگ چک نمبر پانچ سو سات میں پھنچے جہاں ایک جان پہچان کے آباد کار نے نانا جی کو اپنے پاس مزارع
رکھ لیا. نانا جی ہل چلاتے تھے. نانی مویشی چرانے کے لیے لے جاتیں تھیں. ماں جی کھیتوں سے گھاس اور چارہ کاٹ کر زمیندار کی
بھینسوں اور گایوں کے لئے لیا کرتی تھیں. ان دنوں انہیں اتنا مقدور بھی نہیں تھا کہ ایک وقت کی روٹی بھی پوری طرح کھا سکیں. کسی
وقت جنگلی بیروں پر گزارا ہوتا تھا. کبھی خربوزے کے چھلکے ابال کر کھا لیتے تھے. کبھی کسی کھیت میں کچی انبیاں گری ہوئی مل جاتیں
تو انکی چٹنی بنا لیتیں. اور کنٹھے کا ملا جلا ساگ ہاتھ آگیا. نانی محنت مزدوری میں مصروف تھیں. ماں جی نے ساگ چولہے پر چڑھایا.
جب پک کر تیار ہوگیا اور ساگ کو الن لگا کر گھوٹنے کا وقت آیا تو ماں جی نے ڈوئی ایسی زور سے چلائی کے ہنڈیا کا پیندا ٹوٹ گیا.
اور سارا ساگ بہ کر چولھے میں آپڑا. ماں جی کو نانی سے ڈانٹ پڑی اور مار بھی. رات کو سارے خاندان نے چولھے کی لکڑیوں پر
گرا ہوا ساگ انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کسی قدر پیٹ بھرا.
چک نمبر ٥٠٧نانا جی کو بہت راس آیا. چند ماہ کی محنت مزدوری کے بعد نئی آباد کاری کے سلسلے میں آسان قسطوں پر انکو ایک مربع زمین
مل گئی. رفتہ رفتہ دن پھرنے لگے اور تین سال میں انکا شمار گاؤں کے کھاتے پیتے گھرانوں میں ہونے لگا. جوں جوں فارغ البالی بڑھتی گئی
توں توں آبائی وطن کی یاد ستانے لگی. چناچہ خوش حالی کے چار پانچ سال گزارنے کے بعد سارا خاندان ریل میں بیٹھ کر منیلہ کی طرف
روانہ ہوا. ریل کا سفر ماں جی کو بہت پسند آیا. وہ سارا وقت کھڑکی سے بھر منہ نکل کر تماشہ دیکھتی رہتیں. اس عمل میں کوئلے کے بہت سے
زرے انکی آنکھ میں پڑ گئے. جسکی وجہ سے کی روز تک وہ آشوب چشم میں مبتلہ رہیں. اس تجربے کے بعد انہوں نے اپنی ساری عمر اپنے کسی
بچے کو ریل کی کھڑکی سے باہر منہ نکالنے کی اجازت نہ دی.
ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتیں. ہمسفر بچوں اور عورتوں سے فورا گھل مل جاتیں. سفر کی تھکان اور راستے کی گرد و
غبار ان پر کچھ اثر نہ ہوتا. اسکے برعکس اونچے درجے میں بہت بیزار ہو جاتیں. ایک دو بار جب انہیں مجبورا ایئر کنڈیشن ڈبے میں سفر کرنا
پڑا تو تھک کر چور ہوگئیں اور سارا وقت قید کی صعو بت کی طرح گزرا.
منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنے آبائی گھر کو درست کیا. عزیز و اقارب کو تحائف دے. دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لئے بر ڈھونڈنے کا
سلسلہ شروع ہوگیا. اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بہت دھوم تھی. انکا شمار خوش قسمت اور با عزت لوگوں میں ہوتا تھا.
چناچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لئے پے در پے پیام آنے لگے. یوں بھی ان دنوں ماں جی کے خوب ٹھاٹ باٹھ تھے. برادری والوں
پر رعب گانٹھنے کے لئے نانی روز انکو نت نئے کپڑے پہناتیں تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا رکھتیں تھیں.
کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتیں تھیں. ان دنوں میرا تو گاؤں سے نکلنا دوبھر ہوگیا تھا.
جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے. اور کہا کرتے یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے. دیکھتے ہیں کون
خوش نصیب اسکو بیاہ لے جاتے گا.