میں نے اپنا چہرہ دیکھا پھیکی رنگت بجھی ہوئی آنکھیں.میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا. سچ کہتی
ہیں ریحانہ بھابھی میں نے بہت کچھ گنوا دیا.ایک انجانا سا بوجھ میرے سینے پر آدھرا. میں فورا باہر
چلی گئی.ریحانہ بھابھی کچن میں ہی کھڑی تھیں. اور اپنے لئے تازہ پھلوں کا جوس بنا رہی تھیں.
میں خود پر ضبط کے بند باندھتی امی کے لئے پرہیزی کھانا بنانے لگی.پھر ابو کی پسند کی کھیر بھی
بنانی تھی.میں نے ایک برتن میں چاول بھگو کے رکھے.فاخر کے لئے نوڈلز بناتے اور ساتھ میں گھر
والوں کے لئے سبزی کا سالن.میں نے خود کو دیکھا.میں وہاں نہیں کھڑی تھی.میری جگہ ایک مشین
کھڑی تھی.جس کے آٹھ ہاتھ تھے. چار ایک کام کر رہے تھے. چاردوسرا کام.
سلام تیار کر کے ابھی میں نے آٹا گوندھنا ہی شروع کیا تھا کے ابو نے آواز دی.
بیٹا! ظہر کا وقت ہو رہا ہے، میرا سفید کرتا استری کر دو. ان کی بےوقت کی فرمائشیں سن کر
میرے ضبط کی حدیں ٹوٹنے لگیں لیکن میں خاموشی سے ہاتھ دھو کر آئی اور کرتا استری کرنے لگی.
کبھی کبھی یوں ہڑبڑاہٹ میں ایک کام چھوڑ کر دوسرے کرتے ہوے کتنی چرچراہٹ محسوس ہوتی ہے.
ویسا ہی میں محسوس کر رہی تھی."آخر قربانی کا بکرا میں ہی کیوں بنی ہوئی ہوں؟
ریحانہ بھابھی بھی تو ہیں. کتنے دھڑلے سے سسرال میں بیٹھی ہوئی ہیں. مجال ہے کوئی ان سے کوئی کام
کہ دے.ایک میں ہی! الله میں کی گاے مل گئی ہوں سب گھر والوں،لیکن نہیں..... گھر والو کا کوئی قصور نہیں.
قصور تو میرا ہی ہے.مجھے ہی شوق چڑھا تھا، بہت اچھی بننے کا.چپ چاپ ہر کام کرنے کا، ہر ذمداری اپنے
سر لینے کا.قصور تو میرے والدین کا ہے جنہوں نے میری ایسی تربیت کی، جو میں کسی کو نا نہیں کہ پاتی.
سب کے درد اپنے سینے میں لیے پھرتی ہوں.سب کی کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہوں.مجھے ہی انکار
کرنا نہیں آتا.اگر مجھے بھی تھوڑا بہت ڈھیٹائی کا سبق پڑھا لیا جاتا تو آج میں بھی ٹی وی پی کوئی دلچسپ
فیشن شو دیکھ رہی ہوتی. کرتا استری ہوگیا تھا. میں نے اپنے آنسو اپنے اندر اتار کر استری کا پلگ نکالا.
کچن کے کام نبٹاتے نبٹاتے دوپہر کے ساڑھے تین بج چکے تھے.پھر فاخر کو تیار کر کے ٹیوشن بھیجا.اور واشنگ مشین
نکال کر کپڑے دھونے لگ گئی.ریحانہ بھابھی اپنے بچوں اور شوہر کے کپڑے الگ دھوتی تھیں.