امی کی طبیعت اچانک خراب ہوگی تھی. انکو دمے کا اٹیک ہوا تھا،جو کے انکی پرانی بیماری تھی. پر اس بار
تکلیف شدید تھی.سب کچھ بھول بھال کے انکی تکلف پر تڑپ اٹھی. ساری رات انہیں ہسپتال میں ہی رکھا گیا تھا.
صبح قریبا دس بجے عاقب اور عمیربھائی انکو گھر لے آے.وہ پہلے سے بھی زیاد نحیف لگ رہیں تھیں.معمولی
سی بات کرتے ہوے بھی انکا سانس اکھڑ رہا تھا.سب نے انکو منهع کیا کہ وہ زیادہ نہ بولیں. سکون سے رہیں.
آپ آرام کریں، آپکو آرام کی ضرورت ہے.ریحانہ بھابھی نزاکت سے تاکید کرتی اپنے کمرے میں چلی گئیں.
حسب سابق سب مجھے ہی دیکھنا پڑا.گھر کی ذمہ داری، بچوں کے سو کام اور ایک بیمار کی تیمار داری جان کو
کتنے عذاب میں ڈالتی ہے.وہ میں خوب محسوس کر رہی تھی، پر میرے ماتھے پر ایک بھی بل نہیں تھا.
ہیرا ہے ہیرا میری چھوٹی بہو.امی کے پیر دھلوانے کے لئے میں ٹب میں نیم گرم پانی لے کر آرہی تھی.
جب انکی آواز نے میرے قدم روک دیے.وہ عیادت کے لئے آئی ایک پڑوسن سے مخاطب تھیں.
خدا اسے دو جہاں کی خوشیاں دے.ناجانے خدا کو میری کون سی نیکی پسند آگئی.جو اتنے گنوں والی بہو
میرے نصیب میں لکھ دی.ریحانہ سے تو میں کوئی امید ہی نہیں رکھ سکتی. اس قدر کاہل ڈھیٹ ہے سب
ماں باپ کی تربیت کی نتیجہ ہے.سمجھداری، متانت،فرمابرداری،رکھ رکھاؤ اور اخلاق... کون سی خوبی ہے
جو عائزہ میں نہیں ہے؟ آج اگر میری سّگی بیٹی ہوتی تو اتنا حوصلہ اور صبر اس میں بھی نہ ہوتا.
شاید وہ بھی میری اتنی خدمت نا کر پاتی، جتنی عائزہ کر رہی ہے.
بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آگئے . جہاں امی کے لفظوں نے میرے مان اور مرتبے کو بڑھا دیا، وہیں
اپنی جگہ میں شرمسار بھی ہوئی. تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی. ریحانہ بھابھی کی باتوں نے میرے ذہن
میں خناس بھرگیا تھا. جو امی کی باتوں کے اثر سے زائل ہو رہا تھا.کاش میں انہیں بتا پاتی،بے شک
میں نے خود کو گھر کے کاموں میں کھپا دیا ہے،خوبصورتی کو ضایع کیا ہے. لکین بدلے میں
بہت کچھ کمایا بھی تو ہے.
کسی کا فخر، کسی کا مان،ماں باپ کی تربیت کی سرخروئی اور اچھے لفظوں میں انکا تذکرہ.
یہی تو ہے "حاصل زیست"