SIZE
2 / 4

ہے کے بنا کہے مشورے دینا.

میں کچن میں کھڑی کام کر رہی تھی . ان کے چہرے پر ذرا بھی شرمساری نہیں تھی.

جھوٹے منہ بھی یہ نہیں کہا کے دو گھڑی دم لے لو میں کچن سمیٹ دیتی ہوں.لیکن وو ایسا کیوں کہتی. سمیٹنا ہوتا تو پہلے ہی سمیٹ لیتیں ،

.پر ان کے نازک مزاج پر کہاں تھا اپنی جان کو جوکھن میں ڈالنا.

جب سے میری شادی ہوئی تھی . انہوں نے ہر کام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا.گھر کے باقی کاموں کے علاوہ ساس،سسر، اور دیور کے ذاتی کام بھی میں ہی کرتی تھی.

وہ ایک وقت کا کھانا بنا لیں وہی کافی تھا.میری ساس کو کچھ سال پہلے فالج کا اٹیک ہوا تھا وہ تب سے وہ بستر کی ہو کر رہ گئیں تھیں

.ایسے میں ان کی دیکھ بھال ، پرہیزی کھانا ،فزیو تھراپی کے لئے وقت کیسے نکالتی تھی، وہ مجھے ہی پتا تھا ور اوپر سے بھابھی کے طنز.

کیسی سوکھ کے کانٹا ہوگی ہو . ذرا بھی پہلی سی رونق نہیں رہی.دیکھو تو آنکھوں کے نیچے کیسے گہرے سیاہ حلقے پڑ گئے ہیں تمہارے.

بھابھی کی باتیں سن کر اکثر مجھ سے بھی آیئنے میں اپنی صورت نہہی دیکھی جاتی تھی. بھابھی کی باتیں میرا جی جلاتی تھی.

دو اسکول جانے والی بچوں، ساس، سسر،دیور اور کی ساری ذمہ داریوں نے مجھے آدھ موا سا کر کے رکھ دیا تھا.

اب ہر کوئی ریحانہ بھابی جیسا تو نہیں ہو سکتا بے مروت اور خود غرض . اپنے علاوہ انہیں کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا.

سچ عائزہ ! ان گھرکے کاموں میں تم نے خود کو کھپا لیا ہے. وہ ہر وقت مجھے احساس دلاتی یا ورغلاتی.

کیا ملے گا تمھیں ان فالتو لوگوں کے لئے خود کو گنوا کر.کیا پایا ہے تم نے مفت کی ملازمہ بن کر؟

وہ منہ بنا کر کہتی. وو چلی جاتیں اور میں بیٹھی کڑھتی رہتی. آخر وہ مجھے اتنی باتیں کیوں سناتی ہیں؟

خود تو کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتی. اوپر سے مجھ پر تنقید کرتی رہتی ہیں.میں اکثر ان سے لر پڑتی.

ایک دن میں نے اپنی ڈریسنگ ٹیبل کی طرف نظر دوڑائی.وہ بہت سونی سونی لگی، جب کے ریحانہ

بھابھی کی سنگھار میز ہر وقت سولہ سنگھار کے تمام لوازمات سے بھری رہتی.جن کا استعمال ان کی

روزانہ کی روٹین کا حصّہ تھا.وہ خود پر بہت توجہ دیتیں.اس لئے ہمیشہ بہت چمکتی نظر آتیں.

حلانکہ انکی نہ آنکھیں میرے جیسی بڑی تھیں نہ انکی رنگت میری جیسی کھلتی ہوئی.بس سب ان

کریموں کا کمال ہے.