SIZE
4 / 10

تو وہ گلیاں ہی چھوڑ دی جہاں مولا بیٹھنے کا عادی تھا. مشکل کی لٹھ پر سے پھلانگنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا. ایک بار کسی

اجنبی نوجوان ک اس گلی سے گزر ہوا. مولا اس وقت ایک دیوار سے لگا لٹھ سے دوسری دیوار کریدے جا رہا تھا. اجنبی آیا اور لٹھ

پر سے الانگ گیا. آیکایکی مولا نے بپھر کر ٹینک میں سے گنڈاسا نکالا اور لٹھ پر چڑھا کر بولا."ٹھہر جو چھوکرے ، جانتے ہو تم نے

کس کی لٹھ الانگی ہے یہ مولا کی لٹھ ہے. مولے گنڈاسے والے کی".

نوجوان مولا کا نام سنتے ہی یک لخت زرد پڑ گیا اور ہولے سے بولا. "مجھے پتا نہیں تھا، مولے"

مولا نے گنڈاسا اتر کر ٹینک میں اڑس لیا اور لٹھ کے ایک سرے کو نوجوان کے پیٹ پر ہلکے سے دبا کر بولا." تو پھر جا اپنا کام کر"

اور پھر وہ لٹھ کو یہاں سے وہاں پھیلا کر بیٹھ گیا.

مولا کا لباس، اسکی چال، اسکی مونچھیں اور سب سے بڑھ کر اسکا لاابلالیانہ انداز، یہ سب سے پہلے گاؤں کے فیشن میں داخل

هوئے اور پھر علاقے کے فیشن پر اثر انداز هوئے. لیکن مولا کی جو چیز فیشن میں داخل نہ ہو سکی وہ اسکی لانبی لٹھ تھی. تیل پلی

پیٹل کے کوکوں سے اٹی ہوئی، لوہے کی شاموں میں لپٹی ہوئی، گلیوں کے کنکروں پر بجتی اور یہاں سے وہاں تک پھیل کر آنے والوں

کو پلٹا دینے والی لٹھ اور ہپر وہ گنڈاسا جس کے درمیان مولا کی ٹینک تھی. اور جس پر اسکی ماں زنگ کا ایک نقطہ تک نہیں دیکھ

سکتی تھی. لوگ کہتے تھے کہ مولا گلی کی نکروں پر اپنی لٹھ پھیلائے اور گنڈاسا چھپائے گلے اور پھلے کی رہ تکتا رہتا ہے. قادرے

کے قتل اور مولے کی رہائی کے بعد پھلا فوج میں بھرتی ہوکر چلا گیا تھا اور گلے نے علاقے کے مشہور رسہ گیر چودھری مظفر الہی

کے ہاں پناہ لی تھی، جہاں وہ چودھری کے باقی ملازموں کی طرح چناب اور راوی پر سے گائے اور بھنسیں چرا کر لاتا. چودھری مظفر

اس مال کو منڈیوں میں بیچ کر امیروں، وزیروں اور لیڈروں کی بڑی بڑی دعوتیں کرتا اور اخباروں میں نام چھپواتا اور جب چناب اور

راوی کے کھوجی مویشیوں کے کھروں کے نشان کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے جب مظفر الہی کے قصبے کے قریب پھنچتے تو جی ہی

جی میں سوچتے، "ہمارا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا، انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ کروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے چودھری کے

گھر تک جا پھنچے تو پھر کچھ دیر بعد لوگ مویشیوں کی جگہ کھوجیوں کا کھوج لگاتے پھریں گے اور لگا نہ پائیں گے. وہ چودھری

کے خوف سے قصبے کے ایک طرف نکل جاتے اور تھلوں کے ریتوں میں پہنچ کر یہ کہتے هوئے واپس آجاتے. "کھروں کے نشان

یہاں سے غائب ہو جاتے ہیں".

مولا نے چودھری مظفر اور اسکے پھیلے هوئے بازوؤں کے بارے میں سن رکھا تھا. اسے کچھ ایسا لگتا تھا کہ جیسے علاقے بھر

میں صرف ووہی ہے جو اسکی لٹھ الانگ سکتا ہے لیکن فلحال اسکو رنگے کے دوں بیٹوں کا انتظار تھا.

تاجے نے بڑے بھائیوں کی طرح مولے کو ڈانٹا، "اور کچھ نہیں تو اپنی زمینوں کی نگرانی ہی کر لیا کر، یہ کیا بات ہوئی صبح سے شام

تک گلیوں میں لٹھ پھیلائے بیٹھے رہو اور میراثیوں اور نائیوں سے خدمتیں لیے جا رہی ہیں. تو شاید نہیں جانتا پر مان لے اس میں تیرا

ہی بھلا ہے کہ مائیں بچوں کو تیرا نام لے کر ڈرانے لگیں ہیں، لڑکیاں تو تیرا نام سنتے ہی تھوک دیتی ہیں، کسی کو بد دوا دینی ہو تو

کہتی ہیں "الله کرے تجھے مولا بیاہ کر لے جاتے". سنتے ہو مولے!.