تسبیح پڑھ رہا تھا. تھانے دار سے انہوں نے بہت ہیر پھیر کی کوشش کی اور اپنے باپ کا قاتل مولا ہی کو ٹھہرایا. مگر تھانے دار نے انکو
سمجھایا کہ "خوام خواہ اپنے باپ کے قاتل کو ضائع کر بیٹھو گے، کوئی عقل کی بات کرو. ادھر یہ میرے پاس اپنے باپ کے قتل کی رپٹ
لکھوا رہا ہے ادھر تمہارے باپ کے پیٹ میں بھی گنڈاسا بھونک آیا ہے".
آخر دونوں طرف سے چالان هوئے، لیکن دونوں قتلوں کا کوئی چشم دید ثبوت نہ ملنے پر طرفین بری ہو گئے اور جس روز مولا رہا ہو کر گاؤں
واپس آیا تو اپنی ماں سے ماتھے پر طویل بوسہ ثبت کروانے کے بعد پہلے تاجے کے ہاں گیا. اسے بھینچ بھینچ کر گلے لگیا اور کہا.
" اس روز تم اور تمہارا گھوڑا میرے کام نہ آتے تو آج میں پھانسی کی رسی میں توری کی طرح لٹک رہا .ہوتا. تمہاری جان کی قسم جب میں
نے رنگے کے پیٹ کو کھول کر رکاب میں پاؤں رکھا، آندھی بن گیا خدا کی قسم،،،،،، اسی لئے تو لاش ابھی تھانے نہیں پہنچی تھی کہ میں
ہاتھ جھاڑ کر واپس بھی آگیا".
سرے گاؤں کو معلوم تھا کہ رنگے کا قاتل مولا ہی ہے. مگر مولے کے چند عزیزوں اور تاجے کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کچھ
ہوا کیسے پھر ایک دن گاؤں میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ مولے کا باپ تو رنگے کے بڑے بیٹے قادر کے گنڈاسے سے مرا تھا رنگا تو
صرف ہشکار رہا تھا. بیٹھکوں میں رات کو چوپالوں اور گھروں یہ موضوع چلتا رہا اور صبح کو پتا چلا کہ قادر اپنے گھر کی چھت پر
مردہ پایا گیا اور وہ بھی یوں جب اسکے بھائیوں پھلے اور گلے نے اسکو اٹھانے کی کوشش کی تو اسکا سر لڑھک کر گرا اور نالے تک
لڑکھتا چلا گیا، رپٹ لکھوائی، پولیس میں اور مولا پھر گرفتار ہوگیا. مرچوں کا دھواں پیا، تپتی دوپہروں میں لوہے کی چادر پر کھڑا رہا.
کتنی راتیں اسے اونگھنے تک نہ دیا مگر وہ اقبالی نہ ہوا اور آخر مہینوں کے بعد رہا ہوکر گاؤں واپس نکل آیا اور جب اپنے آنگن میں
قدم رکھا تو ماں بھاگی ہوئی آئی. اسکے ماتھے پر طویل بوسہ دیا اور بولی. " ابھی دو باقی ہیں میرے لال، رنگے کا کوئی نام لیوا
نہ رہے، تو جبھی بتیس دھاریں بخشوں گی. میرے دودھ میں ترے باپ کا خون تھا. مولے اور تیرے خون میں میرا دودھ ہے اور تیرے گنڈاسے
پر میں نے زنگ نہیں چڑھنے دیا. "مولا اب علاقے کی ہیبت بن گیا تھا اسکی مونچھوں میں دو دو بل آگئے تھے. کانوں میں سونے کی
بڑی بڑی بالیاں اور خوشبو دار تیل اسکے بالوں میں آگ کی قلمیں جلائے رکھتا تھا. ہاتھی دانت کا ہلالی کنگھا اتر کی اسکی کنپٹی پر
چمکنے لگا.
وہ گلیوں میں سے گزرتا تو پٹھے کی تہبند کا کم سے کم آدھ گز ت اسکے عقب میں لوٹتا چلا جاتا. باریک ململ کا پٹکا اسکے کندھے پر
پڑا رہتا اور اکثر اسکا سرا گر کر زمین پر گھیسٹا رہتا. مولا کے ہاتھ میں ہمیشہ اسکے قد سے لمبی پتلی لٹھ ہوتی اور جب وہ گلی کہ
کسی موڑ یا کسی چوراہے پر بیٹھا ہوتا تو وہ لٹھ جس انداز میں اسکے گھٹنے سے لگتی تو اسی انداز میں لگی رہتی اور گلی میں سے
گزرنے والوں کی اتنی جرات نہ ہوتی کہ وہ مولا کے لٹھ کو ایک طرف سرکانے کے لیے کہ سکیں اور گرا کبھی لٹھ ایک دیوار سے
دوسری دیوار تک تن گئی تو لوگ آتے مولا کی طرف دیکھتے اور پلٹ کر دوسری گلی میں سے چلے جاتے. عورتوں اور بچوں نے