مولے نے گردن کو بڑی زور سے جھٹکا دے کر رنگے کے چوپال کی طرف دیکھا. رنگا اور اسکے بیٹے بٹھوں پر گنڈاسا چڑھائے
چوپائے پر تنے کھڑے تھے. رنگے کا بڑا لڑکا بولا.
"آؤ بیٹے آؤ". گنڈاسے کے ایک ہی وار سے پھٹے هوئے پیٹ میں سے انتڑیوں کا ڈھیر اگل ڈالوں تو قادا نام نہیں، میرا گنڈاسا جلد باز ہے
اور کبڈی کھیلنے والے لاڈلے بیٹے باپ بھائی کا بدلہ نہیں لیتے، روتے ہیں اور کفن کا لٹھا ڈھونڈھنے چلے جاتے ہیں".
مولا جیسے بات ختم کرنے کے انتظار میں تھا. ایک ہی رفتار میں چوپال کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا. مگر اب کبڈی کے میدان کا ہجوم بھی
پہنچ گیا تھا اور گاؤں کا گاؤں اسکے راستے میں حائل ہوگیا تھا. جسم پر تیل چپڑ رکھا تھا اس لئے وہ روکنے والوں کے ہاتھوں نکل جاتا
تھامگر پھر جکڑ لیا جاتا.ہجوم کا ایک حصّہ رنگے اور اسکے تینوں بیٹوں کو بھی روک رہا تھا. چار گنڈاسے ڈوبتے هوئے سورج کی روشنی
میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکا رہے تھے کہ اچانک سارے ہجوم کو سانپ سونگھ گیا. پیر نور شاہ قرآن مجید کو دونوں ہاتھوں میں بلند
کیے چوپال کی سیڑھیوں پر آئے اور چلائے. "اس کلام پاک کا واسطہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ ورنہ بدبختو گاؤں کا گاؤں کٹ مرے گا،
جاؤ تمہیں خدا اور رسول کا واسطہ، قرآن پاک کا واسطہ چلے جاؤ یہاں سے".
لوگ سر جھکا کر ادھر ادھر بکھرنے لگے. مولے نے جلدی سے تاجے سے پٹکا لے کر ادب سے اپنے گٹھنوں کو چھپا لیا اور سیڑھیوں پر
سے اتر گیا. پیر صاحب قرآن پاک کو بغل میں لئے اسکے پاس آے اور بولے. "الله تمہیں صبر دے اور آج اس نیک کام کا اجر دے".
مولا آگے بڑھ گیا. تاجا اسکے ساتھ تھا اور جب گلی کی موڑ پر پھنچے تو مولے نے پلٹ کر رنگے کے چوپال کی طرف نظر دوڑائی.
"تم تو رو رہے ہو مولے"؟ تاجے نے بڑے دکھ سے کہا.
اور مولااپنے ننگے بازو سے آنکھوں تو رگڑ رہا تھا. "تو اب کیا روؤں بھی نہیں"؟
"لوگ کیا کہیں گے"؟ تاجے نے مشوره دیا.
"ہاں تاجے!" مولا نے دوسری بار بازو آنکھوں پر رگڑا. "میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے، میرے باپ کے خون پر مکھیاں
اڑ رہی ہیں اور میں یہاں گلی میں ڈرے هوئے کتے کی طرح دم دباتے بھاگا جا رہا ہوں ماں کے گھٹنے سے لگ کر رونے کے لئے!"
لیکن مولا ماں کے گھٹنے سے لگ کر رویا نہیں. وہ گھر کے دالان میں داخل ہوا تو رشتہ دار اسکے باپ کی لاش کو تھانے اٹھا لے جانے کا
فصیلہ کر چکے تھے. منہ پیٹتی اور بال نوچتی ماں اسکے پاس آئی اور "شرم تو نہیں آتی" کہ کر منہ پھیر کر لاش کے پاس چلی گئی.مولا کے
تیور اسی طرح تنے رہے. اس نے بڑھ کر باپ کی لاش کو کندھا دیا اور برادری کے ساتھ روانہ ہوگیا.
اور ابھی لاش تھانے نہیں پہنچی ہوگی کہ رنگے کی چوپال پر قیامت مچ گئی. رنگ اپنی چوپال سے نکل کر سامنے اپنے گھر میں داخل ہونے ہی
لگا تھا کہ ایک گنڈاسا سا لپکا اور انتڑیوں کا ایک ڈھیر اسکے پھٹے هوئے پیٹ سے باہر ابل کر اسکے گھر کی دہلیز پر بھاپ چھوڑنے لگا.
کافی دیر کو افراتفریح کے بعد رنگے کے بیٹے گھوڑوں پر سوار ہوکر رپٹ کے لئے نکلے، مگر جب وہ تھانے پھنچے تو یہ دیکھ کر
دم بخود رہ گئے کہ جس شخص کے خلاف وہ رپٹ لکھوانے کے لئے آئے تھے وہ وہیں پر اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھا قل ہو الله کی