SIZE
1 / 10

اکھاڑہ جم چکا تھا. طرفین نے اپنی اپنی "چوکیاں " چن لیں تھیں. "پرکوڈی" کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے هوئے ڈھول کے گر

گھوم رہے تھے. انہوں نے رنگین لنگوٹیاں کس کر باندھ رکھیں تھیں. ذرا ذرا سے سفید پھبنٹے ان کے چپڑے هوئے لانبے لانبے پٹوں کے

نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے.وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے

دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو پرکھا جا رہا تھا. مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتریں تھیں. یہ نامور کھلاڑی

اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑ وا رہے تھے کین انکے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک بلکل

تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا. پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آئے، انھوں نے بجتے ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی چوکیوں کے سامنے

ناچتے کودتے هوئے بھاگنے لگے اور پھر آنا "فانا" سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم رہی تھی. "مولا کہاں ہے"؟

مولا ہی کا کھیل دیکھنے تو لوگ دور دراز کے گاؤں سے کھنچے چلے آئے تھے. "مولا کا جوڑی وال تاجا بھی نہیں تھا". دوسرا بھنور پیدا ہوا

اور لوگ پوربی چوکی کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے بڑھنے لگے، جما ہوا پڑ ٹوٹ گیا. منتظمین نے لمبے لمبے بیدوں اور لاٹھیوں کو زمین پر

مار مار کر بڑھتے هوئے ہجوم کے سامنے گرد کا طوفان اڑانے کی کوشش کی کہ پڑ کا ٹوٹنا اچھا شگن نہ تھا. مگر جب یہ سرگوشی انکے

کانوں میں سیروں بارود بھرا ہوا گولہ ایک چکر دینے والے دھماکے سے پھٹ پڑا. ہر طرف سناٹا چھا گیا. لوگ پڑکی چوکور حدود کی طرف

واپس جانے لگے. مولا اپنے جوڑی وال تاجے کے ساتھ میدان میں آگیا. اس نے پھندوں اور ڈوریوں سے سجے اور لدے ڈھول کے گرد بڑے

وقار سے تین چکر کاٹے اور پھر دھول کو پوروں سے چھو کر "یا علی" کا نعرہ لگانے کے لئے ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ ایک آواز

ڈھولوں کی دھما دھم کو چیرتی پھاڑتی اسکے سینے پر "گنڈاسا" بن کر پڑی مولے. "اے مولے بیٹے. تیرا باپ قتل ہوگیا!"

مولا کا اٹھا ہوا ہاتھ سانپ کے پھن کی طرح لہرا گیا پھر ایک دم جسی اسکے قدموں میں نہتے نکل آئے. "رنگے نے تیرے باپ کو ادھیڑ ڈالا

ہے گنڈاسے سے". انکی ماں کی آواز پر اس نے تعاقب کیا!.

پڑ ٹوٹ گیا. ڈھول رک گئے. کھلاڑی جلدی جلدی کپڑے پہننے لگے. ہجوم میں افرا تفریح پیدا ہوئی اور بھگڈر مچ گئی.

مولا کے جسم کا تانبا گاؤں کی گلیوں میں کونڈتے بکھیرتا جا رہا تھا. بہت پیچھے اسکا جوڑی وال تاجا اپنے اور مولا کے

کپڑوں کی گٹھری سینے سے لگاتے آرہا تھا اور پھر اسکے پیچھے ایک خوف زدہ ہجوم تھا. جس گاؤں میں کسی شخص کو

ننگے سر پھرنے کا حوصلہ نہ ہو سکتا تھا وہاں مولا صرف ایک گلابی لنگوٹ باندھے پنہاروں کی قطاروں، بھیڑوں، بکریوں کے

ریوڑوں کو چیرتا ہوا بھاگتا جا رہا تھا. اور جب وہ رنگے کے چوپال کے بلکل سامنے

کے ایک ہجوم میں سے میں نے پیر نور شاہ نکلے اور مولے کو للکار کر بولے. "رک جا مولے".

مولا لپکا چلا گیا مگر پھر ایک دم اسکے قدم جیسے جکڑ لئے گئے اور وہ کسی بت کی طرح جم کر رہ گیا. پیر نور شاہ اسکے

قریب آئے اور اپنی پاٹ دار آواز میں بولے. "تو آگے نہیں جاتے گا مولے".

ہانپتا ہوا مولا کچھ دیر پیر نور شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا. پھر بولا. " آگے نہیں جاؤں گا تو زندہ کیوں رہوں گا"؟

"میں کہ رہا ہوں". پیر جی. "پر زور زور دیتے هوئے دبدبے سے بولے.

مولا ہانپنے کے باوجود ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا. "تو میرے منہ پر کالک بھی مل ڈالیے اور کٹ بھی کاٹ دیں، مجھے تو اپنے

باپ کے خون کا بدلہ چکانا ہے. پیر جی. بھیڑ بکری کی بات ہوتی تو میں آپکے کہنے پر یہیں سے پلٹ جاتا".