لیکن مولا نے تو جس بھٹی میں کودا تھا اس میں پک کر پختہ ہوگیا تھا. بولا!"ابے جا تاجے اپنا کام کر، گاؤں بھر کی گالیاں سمیٹ
کر انکا ڈھیر لگانے آیا ہے؟ دوستی رکھنا بڑی جی داری کی بات ہے بیٹے!تیرا جی چھوٹ گیا تو میری آنکھوں میں دھول کیوں جھونک
رہا ہے. جا اپنا کام کر میرے گنڈاسے کی پیاس ابھی نہیں بجھی.... جا.....اس نے لاٹھی کو کنکروں پر بجایا اور گلی کے سامنے والے
مکان میں میراثی کو بانگ لگائی.". ابے ابھی تک چلم تازہ نہیں کر چکا الو کے پٹھے گھر والوں کی گود میں جاکر بیٹھ گیا ہے چلم تازہ
کر کے لا".
تاجا پلٹ گیا مگر گلی کی موڑ پر جاکر روک گیا اور مڑ کر مولے کو یوں دیکھا جیسے اسکی جوان مردی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا.
مولا کنکھیوں سے دیکھ رہا تھا وہ اٹھا اور لٹھ کو اپنے پیچھے گھسیٹتا ہوا تاجے کے پاس آکر بولا دیکھ تاجے مجھے ایسا لگ رہا ہے
کہ تو مجھ پر ترس کھا رہا ہے اس لئے کہ کسی زمانے میں تیری میری یاری تھی پر اب یہ یاری ٹوٹ گئی ہے تاجے تو میرا ساتھ دے
نہیں سکتا تو پھر یاری کو رکھ کر چاٹنا ہے میرے باپ کا خون اتنا نہیں تھا کہ رنگے اور اسکے ایک ہی بیٹے کے خون سے حساب
چک جاتے، میرا گنڈاسا تو ابھی اسکے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں تک پھنچے گ، اس لئے جا اپنا کام کر. تیری میری یاری ختم،
اس لئے مجھ پر ترس مت کھایا کر،کوئی مجھ پر ترس کھائے تو آنچ میرے گنڈاسے تک پہنچ جاتی ہے جا چلا جا".
واپس آکر مولے نے میراثی سے چلم لے کر کش لگایا تو سلفہ نکل کر بکھر گیا. ایک چنگاری مولا کے ہاتھ پر گری اور ایک لمحہ تک
وہیں چمکتا رہا. میراثی نے چنگاری کو جھاڑنا چاہا تو مولا نے اسکے ہاتھ پر اتنی زور سے ہاتھ مارا کہ میراثی بل کھا کر رہ گیا اور
ہاتھ کو ران اور پنڈلی میں دبا کر ایک طرف ہٹ گیا اور مولا گرجا. "ترس کھاتا ہے حرام زادہ".
اس نے چلم اٹھا کر سامنے دیوار پر پٹخ دیا اور لٹھ اٹھا کر ایک طرف چل دیا.
لوگوں نے مولا کو ایک نئی گلی کی نکر پی بیٹھے هوئے دیکھا تو چونکے اور سرگوشیاں کرتے ادھر ادھر بکھر گئے. عورتیں سروں
پر گھڑے رکھے هوئے آئیں اور "ہائیں" کرتی واپس چلی گئیں. مولا کی لٹھ یہاں سے وہاں پھیلی ہوئی تھی. اور لوگوں کے خیال میں اسکے سر
سر پر خون سوار ہے. مولا اس وقت دور مسجد کے مینار پر بھی چیل کو تکے جا رہا تھا.
اچانک اسے لٹھ پر کنکروں کے بجنے کی آواز آئی.چونک کر اس نے دیکھا کہ کہ ایک نوجوان لڑکی نے اسکی لٹھ اٹھا کر دیوار کے
ساتھ رکھ دی اور ان لانبی سرخ مرچوں کو چن رہی تھی اور جھکتے هوئے اسکے سر پر رکھی ہوئی گٹھری میں سے گر گئی تھیں.
ملا سناٹے میں آگیا لٹھ کو الانگنا تو ایک طرف رہا اس نے یعنی ایک عورت ذات نے لٹھ کو گندے چیتھڑے کی طرح اٹھا کر ایک طرف
ڈال دیا اور اب بہت اطمینان سے مولا کے سامنے بیٹھی مرچیں چن رہی تھی جب مولا نے کڑک کر کہا. "جانتی ہو تم نے کس کی لٹھ پر
ہاتھ رکھا ہے جانتی ہے میں کون ہوں تو اس نے ہاتھ بلند کر کے چنی ہوئی مرچیں گٹھری میں ٹھونستے هوئے کہا کوئی سڑی هوئے لگتے ہو.
مولا مارے غصّے کے اٹھ کھڑا ہوا لڑکی بھی اٹھی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرمی سے بولی اس لئے تو میں نے تمہاری لٹھ تمہارے
سر پر نہیں دے ماری ایسے لٹے لٹے سے لگی تھے تو مجھے تم پر ترس آگیا".