پندرہ سو سے ایک پیسا کم نہیں لوں گی جی".زمرد نے جیسے پیشگی آگاہ کیا. مجھے یہ بڑی ہی جائز اور معقول قیمت لگی تھی.
بازار میں ایسا سوٹ ڈھائی ہزار سے کم تو ہر گز نہ ملتا اور گرا کوئی بڑی دکان ہو تو تین ہزار قیمت لگاتے. میرا خیال تھا آپا
جھٹ سے اسکو پیسے پکڑا دیں گی، مگر میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب آپا نے نفی میں سر ہلایا.
"میں تو اسکا ایک ہزار دوں گی صرف اور وہ بھی تمہارا خیال کر کے، ورنہ پرسوں تمہارے ہی علاقے سے ایک عورت کپڑے
بیچنے آئی تھی اور نو سو پر من بھی گئی تھی بس کلر پسند نہیں آیا مجھے سو نہیں لیا میں نے". آپا نے شاید نہیں بلکے یقینا جھوٹ
ہی بولا تھا.
"بی بی صیب! آپ کام تو دیکھیں اسکا، کتنا باریک اور صفائی سے کیا ہوا ہے." زمرد نے کپڑا آپا کی نگاہوں کے سامنے پھیلاتے
ہوے کہا.
"ہاں ہاں، دیکھ رہی ہوں بلکل باریک سی بیل ہے اور کپڑا تو دیکھو کتنا ہلکا ہے، اسکے ہزار روپے ہی بنتے ہیں". آپا اپنے
موقف سے بلکل نہ ہٹیں تھیں.
"کچھ تو جائز قیمت لگاؤ بی بی! میں تو آپکو بلکل اپنی بہن سمجھ کر کپڑا بیچنے آتی ہوں اور دوسری عورتوں کی طرح منہ پھاڑ کر
زیادہ قیمت بھی نہیں مانگتی. یقین کرو بی بی! میں نے تو اپنی طرف سے بلکل جائز معاوضہ
مانگا ہے. زمرد لجاجت پر اتر آئی.
"بس گیارہ سو ڈان گی". آپا نے جیسے احسان کیا.
"بی بی صیب! کچھ تو اور دو. صبح سے پھرتے پھرتے یہ وقت ہوگیا ہے صرف ایک سوٹ بکا ہے. پھر میرا مہینے بعد ہی چکر
لگے گا. اتنے پیسے تو کرایہ میں ہی اٹھ جاتے ہیں. آپکو تو معلوم ہے کتنی وگنیں بدل بدل کر دکھے کھا کر یہاں تک آنا پڑتا ہے
پھر صوبۂ سے شام تک آپکے شہر کی گلیوں میں پھرتے هوئے تنگوگن کا برا حال ہو جاتا ہے. میں نے گھر میں مہینے کا راشن
ڈلوانا ہےجی".
اس نے دوپٹے سے چہرے پر آے پسینے کو پونچھتے ہوے آپا کو مخاطب کیا.
"بھی زمرد! یہ تم نا انصافی کر رہی ہو پورے مہینے کا راشن تم نے میرے ہی پیسوں کا ڈلوانا ہے. گیارہ سو بلکل ٹھیک قیمت لگائی
میں نے. تم نے دینا ہے تو دو ورنہ کی بات نہیں. کپڑے بہت ہیں ہمارے پاس".
آپا نے بے رخی سے اسکا دکھایا ہوا سوٹ پرے کیا. میں بغور اسکے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لے رہی تھی. اسکے چہرے پر
مایوسی کے سائے لہرانے لگے تھے. مجھے اس پر ترس آنے لگا اور مجھے یہ بھی پتا تھا آپا بھاؤ تاؤ کرنے کی ماہر ہیں. ہمارے