میرے علاوہ امی ابّا اور چوتھے بھائی بھی بچوں پر جان چھڑکتے تھے. میں انکی اکلوتی اور فیورٹ خالہ تھی، جو ہر الٹی سیدھی فرمائش
پوری کرنا اپنا فرض سمجھتی تھی.
مجھے اندازہ تھا کہ جتنی بے چینی سے بچوں کو میری آمد کا انتظار تھا. امی جی کی اجازت ملنے کا مرحلہ طے ہوا تو میں نے
جھٹ پٹ تیاری کر لی اور دو دن بعد سرفرازبھائی ،یکجو لینے آگئے. امی نے مجھے ڈھیروں نصیحتوں سمیت انکے ساتھ روانہ
کر دیا.آپا کے گھر میرا پر تپاق استقبال ہوا. بچے میری ٹانگوں سے لپٹ گئے. کھانے کی میز پر انوع و اقسام کے لوازمات سجا
کر مجھے شرمندہ کر دیا.
"میں بہت دنوں کے لئے رہنے آئی ہوں آپا! یہ تکلف نہیں چلے گا." میں نے انہیں جتا دیا.
"اچھا چلو! ابھی تو کھاؤ پھر سے تو کچن کا چارج میں نے تمہارے ہی حوالے کرنا ہے. تمہارے بھانجے بھانجیوں کو جو الا بلا
چاہیے ہوتا ہے، وہ مجھ سے اچھا تم بنا سکتی ہو."
انکی مراد چائنیز کھانوں کی طرف تھی، جو بچے بہت شوق سے کھاتے تھے اور آپا بلاشبہ روایتی اور دیسی خانوں کی ماہر تھیں
مگر چائنیز اور اٹالین بنانا انکے بس کی بات نہیں تھی اور پھر میں خود بھی سوچ کر آئی تھی کہ آپا کو کچھ دن کے لئے ریسٹ
دینا ہے کہ اوپر تلے کے بچوں نے انکو بالکل ہی گھن چکر بنا کر رکھ دیا تھا سو اگلے دن ہی میں نے بخوشی کچن کا چارج سمبھال
لیا. اگلے دن جب میں نے آپا کی فرمائش پر بطور خاص امی والی طریقے سے شملہ مرچ اور قیمہ بنا رہی تھی تو آپا نے مجھے
آواز دے کر بلایا. میں چولھے کی آنچ ہلکی کر کے باہر نکل آئی.
"جی آپا کہیے". میں نے پوچھا اور ٹھٹھک کر رہ گئی. آپا کے ساتھ ایک تیئس بتیس سالہ لڑکی یا شاید عورت کہنا مناسب ہوگا،
کپڑوں کا گکھڑ کھولے بیٹھی تھی. میں سمجھ گئی وہ زمرد ہوگی. میں نے آپا کی زبانی اسکے بارے میں سن رکھا تھا. وہ کڑھائییوں
والے سیٹ اور بیڈ شیٹ وغیرہ بیچنے کے لئے کسی قریبی قصبے سے آتی تھی. پچھلی بار آپا ہمرے پاس رہنے آئی تھیں تو نہایت
دیدہ زیب کڑھائی والی دو سوٹ جو مجھے تحفتا دے. وہ انہوں نے زمرد سے خریدے تھے.
"زمرد آئی ہے کپڑے لے کر.....دیکھ لو، تمہیں کوئی پسند آتا ہے تو.."
آپ نے مجھے مخاطب کیا. زمرد جلدی جلدی مجھے کپڑے دکھانے لگی ساتھ ہی آپا سے باتیں بھی کے جا رہی تھی. وہ بہت عرصے
سے آپا کے ہاں آتی جاتی تھی. آپا کو اسکے گھریلو حالات کا پوری طرح اندازہ تھا آپاکی ہی زبانی مجھے اسکے بارے میں تھوڑا
بہت پتا تھا.
اسکا میں ایک حادثے میں معذور ہوگیا تھا. پانچ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اس تن تنہا پر تھی. کم عمری میں شادی کی وجہ سے
وہ بتیس تینتیس سال کی عمر میں پانچ بچوں کی ماں بن چکی تھی بلکہ اسکی بڑی بیٹی بھی اب چودہ پندرہ سال کی ہو چکی تھی اور
زمرد کو اسکا نکلتا قد پریشان کر رہا تھا. اب بھی وہ آپا کے پوچھنے پر اپنی اسی بیٹی کے متعلق بتا رہی تھی.