Pages 7
Views2374
SIZE
4 / 7

حالانکہ مجھے اپنے نام سے بے حد نفرت تھی۔نور جہاں کیسا پرانا نام ہے۔ بولتے ہی منہ میں باسی روٹی کا مزا آنے لگتا ہے۔ میں تو نور جہاں سن کر یوں محسوس کیا کرتی تھی جیسے کسی تاریخ کی کتاب کے بوسیدہ ورق سے کوئی بوڑھی اماں سونٹا ٹیکتی ہوئی آ رہی ہوں....مگر بھائی صاحب کو نام بگاڑ کر اسے سنوار دینے میں کمال حاصل تھا۔ ان کے منہ سے جہنیا سن کر مجھے اپنے نام سے کوئی شکایت نہ رہتی اور میں محسوس کرتی گویا ایران کی شہزادی ہوں۔ آپا کو وہ سجادہ سے سجدے کہا کرتھے مگر وہ توبات تھی، جب آپا چھوٹی تھی۔ اب تو بھائی جان اسے سجد ے نہ کہتے بلکہ اس کا پورا نام تک لینے سے گھبراتے تھے۔ خیر میں نے جواب دے دیا۔ ”سکول کا کام کرہی ہوں۔“

پوچھنے لگے۔ ”تم نے کوئی برنارڈشا کی کتاب پڑھی ہے کیا؟“

میں نے کہا۔ ”نہیں!“

انہوں نے میرے اور آپا کے درمیان دیوار پر لٹکی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”تمہاری آپا نے تو ہارٹ بریک ہاو ¿س پڑھی ہوگی۔“ وہ کنکھیوں سے آپا کی طرف دیکھ رہے تھے۔

آپا نے آنکھیں اٹھائے بغیر ہی سر ہلا دیا اور مدھم آواز میں کہا”نہیں!“ اورسویٹر بننے میں لگی رہی۔

بھائی جان بولے ”اوہ کیا بتاو ¿ں جہنیا کہ وہ کیا چیز ہے، نشہ ہے نشہ، خالص شہد، تم اسے ضرور پڑھو بالکل آسان ہے یعنی امتحان کے بعد ضرور پڑھنا۔ میرے پاس پڑی ہے۔“

میں نے کہا۔”ضرور پڑھوں گی۔“

پھر پوچھنے لگے۔ ”میں کہتا ہوں تمہاری آپا نے میٹرک کے بعد پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟“

میں نے چڑ کر کہا ”مجھے کیا معلوم آپ خود ہی پوچھ لیجئے۔“ حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپا نے کالج جانے سے کیوں انکار کیا تھا۔ کہتی تھی میرا تو کالج جانے کو جی نہیں چاہتا۔ وہاں لڑکیوں کودیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کوئی نمائش گاہ ہو۔ درسگاہ تو معلوم ہی نہیں ہوتی جیسے مطالعہ کے بہانے میلہ لگا ہو۔“ مجھے آپا کی یہ بات بہت بری لگی تھی۔ میں جانتی تھی کہ وہ گھر میں بیٹھ رہنے کے لئے کالج جانا نہیں چاہتی۔بڑی آئی نکتہ چین۔ اس علاوہ جب کبھی بھائی جان آپا کی بات کرتے تو میں خواہ مخواہ چڑ جاتی ۔ آپا تو بات کا جواب تک نہیں دیتی اور یہ آپا آپا کر رہے ہیں اور پھر آپا کی بات مجھ سے پوچھنے کا مطلب؟ میں کیا ٹیلیفون تھی؟ خود آپا سے پوچھ لیتے اور آپا، بیٹھی ہوئی گم سم آپا، بھیگی بلی۔

شام کو ابا کھانے پر بیٹھے ہوئے چلا اٹھے۔ ”آج فیرنی میں اتنی شکر کیوں ہے؟ قند سے ہونٹ چپکے جاتے ہیں۔ سجادہ! سجادہ بیٹی کیا کھانڈ اتنی سستی ہوگئی ہے۔ ایک لقمہ نگلنا بھی مشکل ہے“۔

شام آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھوم رہی تھیں۔ حالانکہ جب کبھی ابا جان خفا ہوتے تو آپاکا رنگ زرد پڑ جاتا۔ مگر اس وقت اس کے گال تمتما رہے تھے، کہنے لگی۔”شاید زیادہ پڑگئی ہو۔“ یہ کہہ کر وہ تو باورچی خانے میں چلی گئی اور میں دانت پیس رہی تھی۔ ”شاید۔ کیا خوب۔ شاید۔“

ادھر ابا بدستور بڑبڑا رہے تھے۔ ”چار پانچ دن سے دیکھ رہا ہوں کہ فیرنی میں قند بڑھتی جا رہی ہے۔“ صحن میں اماں دوڑی دوڑی آئیں اور آتے ہی ابا پر برس پڑیں، جیسے ان کی عادت ہے۔ ”آپ تو نا حق بگڑتے ہیں۔ آپ ہلکا میٹھا پسند کرتے ہیں تو کیا باقی لوگ بھی کم کھائیں؟ اللہ رکھے گھر میں جوان لڑکا ہے اس کا تو خیال کرنا چاہیے۔ ”ابا کو جان چھڑانی مشکل ہو گئی، کہنے لگے۔ ”ارے یہ بات ہے مجھے بتا دیا ہوتا میں کہتا ہوں سجادہ کی ماں....“ اور وہ دونوں کھسر پھسر کرنے لگے۔

آپا، ساحرہ کے گھر جانے کو تیار ہوئی تو میں بڑی حیران ہوئی۔ آپا اس سے ملنا تو کیا بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس کے نام پر ہی ناک بھوں چڑھایا کرتی تھی۔ میں نے خیا ل کیا ضرورکوئی بھید ہے اس بات میں۔