اور آپا کی بھیگی بھیگی آنکھیں جھک جاتیں اور وہ کسی نہ کسی کام میں شدت سے مصروف دکھائی دیتی۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ آپا ان کی باتیں غور سے سنا کرتی تھیں گو کہتی کچھ نہ تھی۔ بھائی صاحب بھی بدو سے آپا کے متعلق پوچھتے رہتے لیکن صرف اسی وقت جب وہ دونوں اکیلے ہوتے، پوچھتے۔ ”تمہاری آپا کیا کررہی ہے؟“
”آپا؟“ بدو لا پرواہی سے دہراتا۔ ”بیٹھی ہے....بلاو ¿ں؟“
بھائی صاحب گھبرا کر کہتے۔ ”نہیں نہیں۔ اچھا بدو، آج تمہیں، یہ دیکھو اس طرف تمہیں دکھائیں۔“
اور جب بدو کا دھیان ادھر ادھر ہو جاتا تو وہ مدھم آواز میں کہتے۔ ”ارے یار تم تو مفت کا ڈھنڈورا ہو۔“
بدو چیخ اٹھتا۔ ”کیا ہوں میں؟“ اس پر وہ میز بجانے لگتے۔ ڈگمگ ڈگمگ ڈھنڈورا یعنی یہ ڈھنڈورا ہے، دیکھا؟ جسے ڈھول بھی کہتے ہیں ڈگمگ، ڈگمگ سمجھے؟“ اور اکثر آپا آپا چلتے چلتے ان کے دروازے پر رک ٹھہر جاتی اور ان کی باتیں سنتی رہتی اور پھر چولہے کے پاس بیٹھ کر آپ ہی آپ مسکراتی۔ اس وقت اس کے سر سے دوپٹہ سرک جاتا، بالوں کی لٹ پھسل کر گال پر آگرتی اور وہ بھیگی بھیگی آنکھیں چولہے میں ناچتے ہوئے شعلوں کی طرح جھومتیں۔ آپا کے ہونٹ یوں ہلتے گویا گاڑی ہو مگر الفاظ سنائی نہ دیتے۔ ایسے میں اگر اماں یا ابا باورچی خانے میں آجاتے وہ ٹھٹھک کر یوں اپنا دوپٹہ، بال اور آنکھیں سنبھالتی گویا کسی بے تکلف محفل میں کوئی بیگانہ آ گھسا ہو۔
ایک دن میں ، آپا اور اماں باہر صحن میں بیٹھی تھیں۔ اس وقت بھائی صاحب اندر اپنے کمرے میں بدو سے کہہ رہے تھے۔ ” میرے یار ہم تو اس سے بیاہ کریں گے جو ہم سے انگریزی میں باتیں کر سکے، کتابیں پڑھ سکے، شطرنج، کیرم اور چڑیا کھیل سکے۔ چڑیا جانتے ہو؟ وہ گول گول پروں والا گیند بلے سے یوں ڈز، ٹن ، ڈز اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں مزے دار کھانے پکا کر کھلا سکے، سمجھے ؟“
بدو بولا، ” ہم تو چھاجو باجی سے بیاہ کریں گے۔“
”انہہ!“ بھائی صاحب کہنے لگے۔
بدو چیخنے لگا۔ ”میں جانتا ہوں تم آپ بیاہ کرو گے۔ ہاں!“ اس وقت اماں نے مسکرا کر آپا کی طرف دیکھا۔ مگر آپا اپنے پاو ¿ں کے انگوٹھے کا ناخن توڑنے میں اس قدرمصروف تھی جیسے کچھ خبر ہی نہ ہو۔ اندر بھائی صاحب کہہ رہے تھے۔ ”واہ تمہاری آپا فرنی پکاتی ہے تو اس میں پوری طرح شکر بھی نہیں ڈالتی۔ بالکل پھیکی۔ آخ تھو!“
بدو نے کہا ” ابا جو کہتے ہیں فرنی میں کم میٹھا ہونا چاہیے۔“
”تو وہ اپنے ابا کے لئے پکاتی ہے نا۔ ہمارے لئے تو نہیں!“
”میں کہوں آپا سے؟“ بدو چیخا۔
بھائی چلائے۔ ”او پگلا۔ ڈھنڈورا۔لو تمہیں ڈھنڈورا پیٹ کر دکھائیں۔ یہ دیکھو اس طرف ڈگمگ ڈگمگ۔“ بدو پھرچلانے لگا۔ ”میں جانتا ہوں تم میز بجا رہے ہو نا؟“.... ”ہاں ہاں اسی طرح ڈھنڈورا پٹتا ہے نا۔“ بھائی صاحب کہہ رہے تھے ”کشتیوں میں، اچھا بدو تم نے کبھی کشتی لڑی ہے، آو ¿ ہم تم کشتی لڑیں۔ میں ہوں گاما اور تم بدو پہلوان۔ لو آو ¿، ٹھہرو، جب میں تین کہوں۔ “ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔ ”ارے یار تمہاری دوستی تو مجھے بہت مہنگی پڑتی ہے۔“
میرا خیال ہے آپا ہنسی نہ روک سکی اس لئے وہ اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ میرا تو ہنسی کے مارے دم نکلا جا رہا تھا اور اماں نے اپنے منہ میں دوپٹہ ٹھونس لیا تھا تاکہ آواز نہ نکلے۔
میں اور آپا دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بھائی صاحب آگئے۔ کہنے لگے ”کیا پڑھ رہی ہو جہنیا؟“ ان کے منہ سے جہنیاسن کر مجھے بڑی خوشی ہوتی تھی۔