Pages 7
Views2374
SIZE
2 / 7

البتہ وہ مسکرایا اکثر کرتی تھی۔ جب وہ مسکراتی تو اس کے ہونٹ کھل جاتے اور آنکھیں بھیگ جاتیں۔ ہاں تومیں سمجھتی تھی کہ آپا چپکی بیٹھی ہی رہتی ہے۔ ذرا نہیں ہلتی اور بن چلے لڑھک کر یہاں سے وہاں پہنچ جاتی ہے جیسے کسی نے اسے دھکیل دیا ہو۔ اس کے برعکس ساحرہ کتنے مزے میں چلتی تھی جیسے دادرے کی تال پر ناچ رہی ہو اور اپنی خالہ زاد بہن ساجو باجی کو چلتے دیکھ کر تو میں کبھی نہ اکتاتی۔ جی چاہتا تھا کہ باجی ہمیشہ میرے پاس رہے اور چلتی چلتی اس طرح گردن موڑ کر پنچم آواز میں کہے ”ہیں جی! کیوں جی؟“ اور اس کی کالی کالی آنکھوں کے گوشے مسکرانے لگیں۔ باجی کی بات بات مجھے کتنی پیاری تھی۔

ساحرہ اور ثریا ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں۔ دن بھر ان کا مکان ان کے قہقہوں سے گونجتا رہتا جیسے کسی مندرمیں گھنٹیاں بج رہی ہوں۔ بس میرا جی چاہتا تھا کہ انہیں کے گھر جا رہوں۔ ہمارے گھر رکھا ہی کیا تھا۔ ایک بیٹھ رہنے والی آپا، ایک ”یہ کرو، وہ کرو“ والی اماں اور دن بھر حقے میں گڑ گڑ کرنے والے ابا۔

اس روز جب میں نے ابا کوامی سے کہتے ہوئے سنا سچ بات تو یہ ہے مجھے بے حد غصہ آیا۔ ”سجاہ کی ماں! معلوم ہوتا ہے ساحرہ کے گھر میں بہت سے برتن ہیں۔“

”کیوں؟“ اماں پوچھنے لگیں۔

کہنے لگے۔ ”بس تمام دن برتن ہی بجتے رہتے ہیں اور یا قہقہے لگتے ہیں جیسے میلہ لگا ہو“۔

اماں تنک کر بولیں۔ ”مجھے کیا معلوم۔ آپ تو بس لوگوں کے گھر کی طرف کان لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔“

ابا کہنے لگے۔ ”افوہ! میرا تو مطلب ہے کہ جہاں لڑکی جوان ہوئی برتن بجنے لگے۔ بازار کے اس موڑ تک خبر ہو جاتی ہے کہ فلاں گھر میں لڑکی جوان ہو چکی ہے۔ مگر دیکھو نا ہماری سجادہ میں یہ بات نہیں۔“ میں نے ابا کی بات سنی اور میرا دل کھولنے لگا۔ ”بڑی آئی ہے۔ سجادہ جی ہاں ! اپنی بیٹی جو ہوئی۔ “ اس وقت میرا جی چاہتا تھا کہ جا کر باورچی خانے میں بیٹھی ہوئی آپا کا منہ چڑاو ¿ں۔ اسی بات پر میںنے دن بھر کھانا نہ کھایا اور دل ہی دل میں کھولتی رہی۔ابا جانتے ہی کیا ہیں۔ بس حقہ لیا اور گڑ گڑ کرلیا یا زیادہ سے زیادہ کتاب کھول کر بیٹھ گئے اور گٹ مٹ گٹ مٹ کرنے لگے جیسے کوئی بھٹیاری مکی کے دانے بھون رہی ہو۔ سارے گھر میں لے دے کے صرف تصدق بھائی ہی تھے جو دلچسپ باتیںکیا کرتے تھے اور جب ابا گھر پر نہ ہوتے تو وہ بھاری آواز میں گایا بھی کرتے تھے ۔ جانے وہ کون سا شعر تھا....ہاں

چپ چپ سے وہ بیٹھے ہیں آنکھوں میں نمی سی ہے

نازک سی نگاہوں میں نازک سا فسانہ ہے

آپا انہیں گاتے ہوئے سن کر کسی نہ کسی بات پر مسکرا دیتی اور کوئی بات نہ ہوئی تو وہ بدو کو ہلکا سا تھپڑ مار کر کہتی۔ ”بدو رو نا “ اور پھر آپ ہی بیٹھی مسکراتی رہتی۔

تصدق بھائی میرے پھوپھا کے بیٹے تھے۔ انہیں ہمارے گھر آئے یہی دو ماہ ہوئے ہوں گے۔ کالج میں پڑھتے تھے۔ پہلے تو وہ بورڈنگ میں رہا کرتے تھے پھر ایک دن جب پھوپھی آئی ہوئی تھی تو باتوں باتوں میں ان کا ذکر چھڑ گیا۔ پھوپھی کہنے لگی بورڈنگ میں کھانے کا انتظام ٹھیک نہیں۔ لڑکا آئے دن بیمار رہتا ہے۔ اماں اس بات پر خوب لڑیں۔ کہنے لگیں۔ ”اپنا گھرموجود ہے تو بورڈنگ میں پڑے رہنے کا مطلب؟“ پھر ان دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ اماں کی تو عادت ہے کہ اگلی پچھلی تمام باتیں لے بیٹھتی ہیں۔ غرضیکہ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہفتے کے بعد تصدق بھائی بورڈنگ چھوڑ کر ہمارے ہاں آٹھہرے۔

تصدق بھائی مجھ سے اور بدو سے بڑی گپیں ہانکا کرتے تھے۔ ان کی باتیں بے حد دلچسپ ہوتیں۔ بدو سے تو وہ دن بھر نہ اکتاتے۔ البتہ آپا سے وہ زیادہ باتیں نہ کرتے ۔ کرتے بھی کیسے، جب کبھی وہ آپا کے سامنے جاتے تو آپا کے دوپٹے کا پلو آپ ہی آپ سرک کر نیم گھونگھٹ سا بن جاتا۔