جب کبھی بیٹھے بٹھائے، مجھے آیا یاد آتی ہے تو میری آنکھوں کے آگے چھوٹا سا بلوری دیا آجاتا ہے جو نیم لو سے جل رہا ہو۔
مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم سب چپ چاپ باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ میں ، آپا اور امی جان، کہ چھوٹا بدو بھاگتا ہوا آیا۔ ان دنوں بدو چھ سات سال کا ہوگا۔ کہنے لگا۔ ” امی جان! میں بھی باہ کروں گا۔“
”واہ ابھی سے؟ اماں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر کہنے لگیں۔ ”اچھا بدو تمہارا بیاہ آبا سے کردیں؟“
”اونہوں“ بدو نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
اماں کہنے لگیں ۔ ”کیوں آپ کو کیا ہے؟“
”ہم تو چھاجو باجی سے باہ کریں گے۔“ بدو نے آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا۔
اماں نے آپا کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہنے لگیں۔ ”کیوں دیکھو تو آپا کیسی اچھی ہیں“۔
”ہواں بتاو ¿ تو بھلا۔ “ اماں نے پوچھا۔ بدو نے آنکھیں اٹھا کر چاروں طرف دیکھا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر اس کی نگاہ چولہے پر آکر رکی، چولہے میں اپلے کا ایک جلا ہوا ٹکڑا پڑا تھا۔ بدونے اس کی طرف اشارہ کیا اور بولا ”ایسی!“ اس بات پر ہم سب دیر تک ہنستے رہے۔ اتنے میں تصدق بھائی آگئے۔ اماں کہنے لگیں۔”تصدق بدو سے پوچھنا تو آپا کیسی ہیں؟“ آپا نے تصدق بھائی کو آتے ہوئے دیکھا تو منہ موڑ کر یوں بیٹھ گئی جیسے ہنڈیا پکانے میں منہک ہو۔“
”ہاں تو کیسی ہے آپا، بدو؟“ وہ بولے۔ ”بتاو ¿ں؟“ بدو چلا اور اس نے اپلے کا ٹکڑا اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ غالباً وہ اسے ہاتھ میں لے کر ہمیں دکھانا چاہتا تھا مگر آپا نے جھٹ اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور انگلی ہلاتے ہوئے بولیں۔ ”اونہہ“۔ بدو رونے لگا تو اماں کہنے لگیں، پگلے اسے ہاتھ میں نہیں اٹھاتے، اس میں چنگاری ہے.... ”وہ تو جلا ہوا ہے اماں!“ بدو نے بسورتے ہوئے کہا۔ اما بولیں“ میرے لال تمہیں معلوم نہیں اس کے اندر تو آگ ہے۔ اوپر سے دکھائی نہیں دیتی۔“ بدو نے بھولے پن سے پوچھا۔ ”کیوں آپا اس میں آگ ہے“۔ اس وقت آپا کے منہ پر ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ ” میں کیا جانوں؟“ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی اور پھنکنی اٹھا کر جلتی ہوئی آگ میں بے مصرف پھونکیں مارنے لگی۔
اب میں سمجھتی ہوں کہ آپا دل کی گہرائیوں میں جیتی تھی اور وہ گہرائیاں اتنی عمیق تھیں کہ بات ابھرتی بھی تو بھی نکل نہ سکتی۔ اس روز بدو نے کیسے پتے کی بات کہی تھی مگر میں کہا کرتی تھی۔ ”آپا تم تو بس بیٹھ رہتی ہو۔“ اور وہ مسکرا کر کہتی۔ ”پگلی“ اور انپے کام میں لگ جاتی۔ ویسے وہ سارا دن کام میں لگی رہتی تھی۔ ہر وقت کوئی اسے کسی نہ کسی کام کو کہہ دیتا اور ایک ہی وقت میں اسے کئی کام کرنے پڑ جاتے۔ ادھر بدو چیختا۔ ” آپا میرا دلیا۔“ ادھر ابا گھورتے ”سجادہ ابھی تک چائے کیوں نہیں بنی؟“ بیچ میں اماں بول پڑتیں۔ ”بیٹا دھوبی کب سے باہر کھڑا ہے؟“ اور آپا چپ چاپ سارے کاموں سے نپٹ لیتی۔ یہ تو میں خوب جانتی تھی مگر اس کے باوجود جانے کیوں اسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ وہ کام کر رہی ہے یا اتنا کام کرتی ہے۔ مجھے تو بس یہی معلوم تھا کہ وہ بیٹھی ہی رہتی ہے اور اسے ادھر ادھر گردن موڑنے میں بھی اتنی دیر لگتی ہے اور چلتی ہے تو چلتی ہوئی معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ میں نے آپا کو کبھی قہقہہ مار کر ہنستے ہوئے نہیں سنا تھا۔ زیادہ سے زیادہ وہ مسکرا دیا کرتی تھیں اور بس۔۔