کبھی کبھار ساحرہ دیوار کے ساتھ چارپائی کھڑی کر کے اس پر چڑھ کر ہماری طرف جھانکتی اور کسی نہ کسی بہانے سلسلہ گفتگو کو درازکر نےکی کوشش کرتی تو آپا بڑی بیدلی سے دو ایک باتوں سے اسے ٹال دیتی۔ آپ ہی آپ بول اٹھی۔ ”ابھی تو اتنا کام پڑا ہے اورمیں یہاں کھڑی ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ باورچی خان میں جا بیٹھتی۔ خیر اس وقت تو میں چپ چاپ بیٹھی رہی مگر جب آپا لوٹ چکی تو کچھ دیر کے بعد چپکے سے میں بھی ساحرہ کے گھر جا پہنچی۔ باتوں ہی باتوں میں نے ذکر چھیڑ دیا۔ ”آج آپا آئی تھی؟“
ساحرہ نے ناخن پر پالش لگاتے ہوئے کہاک۔ ”ہاں کوئی کتاب منگوانے کو کہہ گئی ہے نہ جانے کیا نام ہے اس کا ہاں! ہارٹ بریک ہاو ¿س۔“
آپا اس کتاب کو مجھ سے چھپا کر دراز میں رکھتی تھی۔ مجھے کیا معلوم نہ تھا۔ رات کو وہ بار بار کبھی میری طرف اور کبھی گھڑی کی طرف دیکھتی رہتی۔ اسے یوں مضطرب دیکھ کر میں دو ایک انگڑائیاں لیتی اور پھر کتاب بند کرکے رضائی میں یوں پڑ جاتی جیسے مدت سے گہری نیند میں ڈوب چکی ہوں۔ جب اسے یقین ہو جاتا کہ میں سو چکی ہوں تو درازکھول کر کتاب نکال لیتی اور اسے پڑھنا شروع کردیتی۔ آخر ایک دن مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے رضائی سے منہ نکال کر پوچھ ہی لیا۔ ”آپا یہ ہارٹ بریک ہاو ¿س کا مطلب کیا ہے۔ دل توڑنے والا گھر؟ اس کے کیا معنی ہوئے؟“ آپا پہلے تو ٹھٹھک گئی، پھر وہ سنبھل کر اٹھی اور بیٹھ گئی۔ مگر اس نے میری بات کا جواب نہ دیا۔ میں نے اس کی خاموشی سے جل کر کہا۔
”اس لحاظ سے تو ہمارا گھر واقعی ہارٹ بریک ہے۔“
کہنے لگی۔ ”میں کیا جانوں؟“
میں نے اسے جلانے کہ کہا۔ ”ہاں! ہماری آپا بھلا کیا جانے؟“ میراخیال ہے یہ بات ضرور اسے بری لگی ۔ کیونکہ اس نے کتاب رکھ دی اور بتی بجھا کر سو گئی۔
ایک دن یونہی پھرتے پھرتے میں بھائی جان کے کمرے میں جا نکلی۔ پہلے تو بھائی جان ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ پھر پوچھنے لگے۔ ”جہنیا، اچھا یہ بتاو ¿ کیا تمہاری آپا کو فروٹ سلاد بنانا آتا ہے؟“ میں نے کہا ”میں کیا جانوں؟ جا کر آپا سے پوچھ لیجئے۔“ ہنس کر کہنے لگے۔ ”آج کیا کسی سے لڑ کر آئی ہو۔“
”کیوں میں لڑاکا ہوں؟“ میں نے کہا۔
بولے ”نہیں ابھی تو لڑکی ہو شاید کسی دن لڑاکا ہوجاو ¿۔“ اس پر میری ہنسی نکل گئی۔ وہ کہنے لگے۔ ”دیکھو جہنیا مجھے لڑنا بے حد پسند ہے۔ میں تو ایسی لڑکی سے بیاہ کروں گا جو باقاعدہ صبح سے شام تک لڑ سکے، ذرا نہ اکتائے۔“ جانے کیوں میں شرما گئی اور بات بدلنے کی خاطر پوچھا۔ ”فروٹ سلاد کیا ہوتا ہے بھائی جان؟“
بولے۔ ”وہ بھی ہوتا ہے۔ سفید سفید، لال لال، کالا کالا، نیلا نیلا سا۔“میں ان کی بات سن کر بہت ہنسی، پھر کہنے لگے۔ ” مجھے وہ بے حد پسند ہے، یہاں تر جہنیا ہم فیرنی کھا کر اکتا گئے۔ ”میراخیال ہے یہ آپ نے ضرور سن لی ہو گی۔ کیونکہ اسی شام کو وہ باورچی خانے میں بیٹھی ”نعمت خانہ“ پڑ رہی تھی۔ اس دن کے بعد روز بلا ناغہ وہ کھانے پکانے سے فارغ ہو کر فروٹ سلاد بنانے کی مشق کیا کرتی اور ہم میں کوئی اس کے پاس چلا جاتا تو جھٹ فروٹ سلاد کی کشتی چھپا دیتی۔ ایک روز آپا کو چھیڑنے کی خاطر میں نے بدو سے کہا۔” بدو بھلا بوجھو تو وہ کشتی جو آپا کے پیچھے پڑی ہے اس میں کیاہے؟“
بدو ہاتھ دھو کر آپا کے پیچھے پڑ گیا۔ حتیٰ کہ آپا کو وہ کشتی بدو کودینی ہی پڑی۔ پھر میں نے بدو کو اور بھی چمکا دیا۔ میں نے کہا۔ ”بدو جاو ¿ ، بھائی جان سے پوچھو اس کھانے کا کیا نام ہے....“
بدو بھائی جان کے کمرے کی طرف جانے لگا تو آپا نے اٹھ کر وہ کشتی اس سے چھین لی اور میری طرف گھور کر دیکھا۔