اور اس کی نئی نویلی زندگی کا پہلا جھگڑا ہی اتنا خطرناک ثابت ہوا کہ میاں سمیت اس کے تمام سسرالیوں نے کئی دن تک اس کا اس " دھوکا دہی" پر سوشل بائیکاٹ کیے رکھا۔ بڑوں کی کوتاہی کے نتیجے میں ہونے والا یہ جھگڑا حمنی کے لیے ایسا استاد ثابت ہوا جس نے چند لمحوں میں ہی اس کی اگلی پوری زندگی کا لا ئحہ عمل ترتیب دے دیا۔ انسان خود کو عقل کل سمجھ کر جو بڑے بڑے فیصلے کرتا ہے وہ ایک ہی ٹھوکر پر اسے حقائق کے صحرا میں لا پٹختے ہیں ' پھر جو عجلت جھٹک کر ہاتھ پاؤں مارے تو حلق تر کرنے کا وسیلہ ڈھونڈ لیتا ہے اور جو اپنی ہٹ پر ڈٹا رہے وہ موت کو گلے لگا لیتا ہے' ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتا ہے' لیکن حقائق کو قبول کرنے کی طاقت نہیں لا پاتا۔ حمنی نے بھی ہاتھ پاؤں مار کر وسیلے ڈھونڈنا پسند کیا اور خود کو حقائق کے تھپیڑوں کے اگے فولاد ملی دیوار بنا دیا۔
یہ انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ اپنی یہ اپنے پیاروں کی عمر کو روک لے یا وقت کو تھام لے ۔ اختیارات کو مالک ہی کے سپرد کرنے میں مطمئن رہے تو اطمینان دائمی رہتا ہے' لیکن انسان ہے نا۔ روتے رہنا جس کی فطرت ہے۔ یہ حمنی کی ماں کے اختیارات میں نہ تھا کہ وہ بیٹی کی بڑھتی عمر کو روک لیتی یا کسی کا بھی ہاتھ تھام کر کم عمری میں سہاگن بنا دیتی' اس کے اختیار میں صرف انتظار تھا جو اس نے کیا۔
یہ حمنی اور حامد کے بھی اختیار سے باہر تھا کہ وہ اپنی لاڈلی بیٹی ہانیہ کی عمر کے سیل رواں کو بہنے سے روک لیتے ۔ بیوی کو تا زندگی عمر کے طعنے دینے والا اپنی انکھوں کے سامنے اپنی بیٹی کی عمر کو انتیس سے اوپر جاتا دیکھ رہا تھا اور کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔ لیکن مرد شاذ ہی اپنی غلطی تسلیم کرتا ہے اور مرد اگر حامد جیسا ہو تو اسے تو اپنا کیا یاد بھی نہیں رہتا۔ وہ تادم مرگ خود کو " صحیح " ہی مانتا رہتا ہے۔ لیکن حمنی کا لائحہ عمل ٹھوس تھا ۔ اسی لیے جب ہانیہ کا مناسب سا رشتہ ایا تو مہمانوں کو اس کی عمر کا تلخ سچ ظاہر کرتے ہوۓ اس نے اپنے شوہر کی برہم نگاہوں کو دل میں پیوست ہوتا محسوس کیا' لیکن اس کا دل بھلے ہی خون ہو جاتا ' وہ اپنی لاڈلی کے سپنوں کا خون ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی' وہ اس کے گھر کی بنیاد سچ کے گارے پر اٹھانا چاہتی تھی ' پانی پر بنے محل دیکھتے ہی دیکھتے لہروں میں تحلیل ہو جاتے ہیں اور اس محل کی شہزادی گم گشتہ قصہ بن کر رہ جاتی ہے۔