گندمی رنگت اور نمکین روپ کے ساتھ معصوم کنواری سوچوں کو۔۔۔۔نکھارے سنوارے ' ڈری سہمی حمنی نے حامد کے نام پر سسرال میں قدم رکھا اور اس کی زندگی کے تنہا لمحات مہکاۓ اور سونا کمرہ سجایا۔ اگر حامد ایک روایتی مزاج دار شوہر تھا تو وہ بھی روایتی ستی ساوتری قسم کی خدمت گزار بیوی ثابت ہوئی' جو شوہر کے بلانے پر انکار کو سنگین گناہ سمجھتی تھی اور شوہر کی ناراضی سے بیوی پر پڑنے والی فرشتوں کی لعنت پر پکا ایمان رکھتی تھی۔ جب مرد روایتی حاکمیت پسند اور خود پرست ہو تو بیوی فرشتہ بھی مل جاۓ ' پھر بھی کیڑے نکال ہی لیتا ہے۔ اندر کہیں کوئی احساس کمتری تھا یا کوئی چبھن تھی جو وہ ہر لمحہ حمنی پر اس سے شادی کر لینے کا احسان جتاتا رہتا تھا اور اس کا دل کتنا بھی فگار ہوتا ' وہ بس اس پر پروانہ وار نثار ہوتی رہتی کہ یہ اس کا شوہرانہ حق تھا ' لیکن وہ بجاۓ شکر ادا کرنے کے کچوکے لگانے کے موقعے ڈھونڈتا۔ قدرت نے اسے یہ موقع بھی جلد فراہم کر دیا۔
شادی کے بعد شوہر کے نام کا شناختی کارڈ بنوانے کا مرحلہ ایا تو حمنی نے لا پروائی سے پرانا کارڈ حامد کو لا تھمایا اور لگی چادر اوڑھنے۔ پرس اٹھا کر مڑی تو شناختی کارڈ کو گھورتے حامد کے تیور خطرناک تھے۔ کھینچ کر کارڈ منہ پر دے مارا۔
' اس کارڈ کے مطابق تمہاری عمر تیس برس اور تمہارے گھر والوں نے پچیس بتائی تھی ۔ اتنا بڑا جھوٹ۔۔۔" وہ دھاڑا تو حمنی بری طرح سہم گئی۔ حامد کا چہرہ اس کے انسوؤں میں چھپ گیا اور دھند کے پار اس کی انکھوں کی پتلیوں میں پیاری ماں کی شبیہہ ابھری جو کہہ رہی تھی۔
" جی بس یہ ہی کوئی پچیس چھبیس برس کی ہے ہماری حمنی!" جواب میں سامنے بیٹھی اس کی ساس نے سر ہلایا۔
" ہاں جی ' مناسب ہے بر ' ہمارا حامد بھی اس سال تیس کا ہوا ہے' اتنا فرق تو بالکل مناسب ہے ۔" اسے گم صم خاموش دیکھ کر حامد مزید جھنجلایا اور زور دار تھپڑ دے مارا تو وہ خرد کی دنیا میں لوٹ آئی۔ اب وہ پیر پٹختا باہر جا رہا تھا ۔ وہ کہہ نہ سکی کہ شناختی کارڈ تو اس نے بھی دیکھا تھا ' پر اسے واویلا کرنے کی اجازت نہ تھی کہ حامد کی ماں نے کیوں 35 برس میں سے 5 برس کی ہیرا پھیری کی تھی ۔ جیسے کو تیسا ہی ملتا ہے ناں پھر۔۔۔ میز پر پڑا شناختی کارڈ اٹھا کر اس نے واپس پرس میں ڈالا اور چادر اتار کر تہہ لگا دی ۔