یا پھر حضور اکرم صلی الله علیہ و سلم کا چار بیٹیوں کی پیدائش کے بدلے جنت کمانے والا واقعہ بیان کرتے . یہ واقعہ ہر آئے گئے کے سامنے کئی بار سنایا جا چکا تھا اور سب کو باور کروایا جا چکا تھا . جو سنتا سر دھنتا اور ابا کے عجز کو مزید ایک نمبر آگے کا مرتبہ دے جاتا .
بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ابا ' خاندان میں سب سے بڑے بن گئے .
اس واقعے میں رتی ' ماشے ' تولے کا حساب کتاب بہت پہلے ' شید چھوٹی اقرا کی پیدائش کے وقت ہی لگا لیا گیا تھا . اور اب اسے ایسے سنایا جاتا ہے جیسے ماہر سنار زیور کی پوری پوری قیمت نکالتا ہے . نہ ادھر نفع نہ ادھر نقصان یا جیسے موسموں کا تغیر رک جاۓ اور ہر سال گندم کی فصل ایک ایک جیسی ہو . اضافے سے مبرا ' فقدان سے پرے .
ابا اکثر افسوس بھی کرتے کہ ان کے گھر چوتھی بیٹی کیوں نہ ہو گئی . وہ ایک درجہ پیچھے رہ گئے . ایسے موقعوں پر اماں انھیں میت کے سرہانے بیٹھنے جیسا دلاسا دیتی ہیں . کہ جنت کا وعدہ تو تین بیٹوں کی پیدائش اور تربیت کے بدلے بھی ہے ' دو اور ایک کے بدلے بھی ... پھر آپ کیوں افسوس کرتے ہیں ؟
میری اماں بڑی جی دار قسم کی عورت ہیں . وہ سمجھتی ہے کہ اس کا گھر پہاڑ کے نظر نہ آنے والے غار کے اندر ہے . جہاں ' سردی ' گرمی کا کوئی خوف نہیں ہوتا . وہ مشکلات اور آفات میں دل سے تسبیح پھیر لینے کے بعد الله پر کامل یقین رکھنے والی عورت ہے . شکر گزاری اس کے سر کے بالوں کی اگلی سفید جڑوں کی طرح اس کے چہرے سے ہر وقت جھلکتی نظر آتی ہے . اور اس کی آنکھوں میں اس زعم کی تاپ ہے کہ اس کا مرحوم بھائی مشہور ادارے میں قران مجید لکھا کرتا تھا .
ابا نے جو دیا . جتنا دیا . اماں نے ہمیشہ اسی میں گزارا کیا . کبھی خواہشوں کو مارنے اور سوکھی نگلنے والی فضا گھر میں قائم نہیں ہونے دی . اماں کو نلکیوں کے ڈبے میں کے ڈبے میں ہاتھ ڈال کر سارے دھاگے سلجھانے کا فن آتا ہے .
ابا اماں دونوں میں وہ فرق ہے جو چیری اور بیری میں ہوتا ہے . ابا کے منصب پر آنچ برابر کی کمی کر دو تو اماں کی حیثیت نکل کر سامنے آ جاتی ہے . جو کہ ایک " مقرب " کی سی ہے . ہمارے گھر میں روز رات کھانے کے بعد اکثر میٹھی سویوں کے ساتھ نصیحت بھی ملتی ہے . خطیب ابا اسلامی تاریخ ' فتوحات ' غزوات ' مذہبی ' دل گداز و دلکش واقعات اس ترکیب سے سناتے ہیں کہ ہم سب کی آنکھیں اشک بار ' دل روئی کے پھائے جیسے بے وزن اور چہرے ایسی صورت اختیار کر لیتے ہیں جیسے مدتوں سے مسکرا کر نہیں دیکھا .
" مقرب اماں' اپنے فرائض اگلے دن انجام دیتیں . اپنے راج کی پرات میں گوندھے آٹے سے پیڑا پیڑا لیتی ' کڑیوں سے کڑیاں ملاتی وہ شوہر اور بیوی کے رشتے پر جا کر چولہے میں آگ بھڑکاتیں.
" الله کے بعد اگر کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو بیوی کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ." بات بتاتے اماں ہارے ہوئے جواری کی طرح کنگال نظر آتیں .
" ہائے رضیہ ! میں تو دل ہی دل میں اکثر الله سے یہ شکایت کرتی ہوں کہ پھر یہ اجازت دے کیوں نہ دی ؟ میں تو تیرے ابا کے اگے سے پھر شاید سجدے سے اٹھتی ہی ناں..."