اماں اپنے شکوے کی مدھم سروں کی بین تان اٹھاتیں اور رضیہ باجی بڑی مہارت سے اسے تاسف کے لحاف میں لپیٹ دیتیں .
رضیہ باجی بھی پوری امان کی نقل ہیں . صبح اکثر چولہے کے پاس بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہوئے سمجھے اس بات کا احساس تک نہ ہو پاتا کہ دو دو اینٹ جوڑ کر بنائے گئے چولہے کے پاس آج اماں بیٹھی ہیں کہ رضیہ باجی .....
' لعنت بھیجی گئی .... جو ماں باپ کو بڑھاپے میں پاۓ اور ان کی خدمت کر کے جنت نہ کما سکے ." باجی رضیہ پر اماں ابا کا خوب اثر ہوا ہے . وہ ابھی سے اپنے عہدے کی تیاری کرتی اپنی عمر سے میل کھاتے واقعات ازبر کرنے لگی ہیں .
باجی رضیہ میں ایک وصف خوب ہے . ووہ باتوں سے آنکھوں کی جھڑی نہیں لگواتیں. بلکہ لہجے سے اوس نچھاور کرتی ہیں . جیس سقہ اکثر پانی پلاتے ' پنکھا جھلنے کے ساتھ ساتھ کسی خاص محفل پر عطر کا مینہ برساتا بھی نظر آتا ہے . اور اس کے جیسے تیسے لباس ' حلیے کو غیر اہم جانتے ہوئے اس کے ہاتھوں کی حرکت سے نکلتی یہ ننھی ننھی بوندیں بڑی مقدس لگتی ہیں اور انہیں سمیٹ لینے کو جی چاہتا ہے .
رضیہ باجی مذہبی مدرسے کا طاقچہ ہیں .
ابا ' اماں' رضیہ باجی تینوں اجتماعی طور پر اس آرزو کے ساتھ نتھی ہیں کہ کوئی معجزہ ہو . کوئی درویش اپنی کرامت دکھا دے . کچھ وقت کی حدود سے ہٹ کر ظہور ہو اور وہ چودہ سو سال پہلے چلے جائیں . نبی اخر الزماںصلی الله علیہ و سلم کا دیدار کریں . ان کے ساتھ ہجرت کی صعوبتیں کاٹیں . غزوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں . تینوں عجائب گھر کا وہ خفیہ گوشہ ہیں جہاں اسلامی ورثے کے نمونے بڑی شان کے ساتھ رکھے جاتے ہیں اور جہاں ہر خاص و عام کی رسائی ممکن نہیں ہوتی .
رفتہ رفتہ میں بھی اس عجائب گھر کا ایک ٹوٹا پھوٹا ' کچا پکا جھروکا بننے جا رہی تھی .
پتا نہیں اچانک کیا ہوا . کالی سیاہ دیوار میں روشنی کا آلہ کسی کو تاہ اندیش مستری نے کیونکر چھوڑ دیا . یا وہ بانس کا ڈنڈا ہی سازشی تھا جو خود رونمائی کی بنتی چٹان میں " کوہ " کا حصہ تو بن گیا تھا . لیکن پھر بڑی چالاکی سے اپنے حصے کا سوراخ چھپا گیا اور اس کے پیچھے کا سورج نظر آیا بھی تو مجھے میں صرف گھپ اندھیرا دیکھنے کی عادی تھی . اپنی ذات کا بھیانک پن مجھ پر اسی وقت آشکار ہوا .
چھوٹی اقرا کہتی ہے . تاریکی وسوسے کی طرح انسان کے دل میں گھر کر لیتی ہے . پھر بڑھتے بڑھتے بصارت ' سماعت ' نظریے ' سوچ ' خیالات ہر چیز پر حاوی ہو جاتی ہے .
اقرا نہیں دیکھتی کہ اگلے کا ضمیر ایسی بھاری باتوں کو سہارنے جوگا ہے بھی کہ نہیں . اس کی باتوں کی کیاری ڈرانے ' دم گھوٹنے والے بیجوں سے ہی پروان چڑھتی ہے . خود بھی کھجور کے پتے کی طرح ہے . سخت اور نوک دار ' جنگل کی کسی پر جاتی کے ساتھ جس کا میل نہیں ہوتا اور اپنی اسی خامی کے با عث وہ اکلاپے کی زندگی گزارتا ہے . شاید باجی رضیہ کا اقرا کو پرائیویٹ اسکول میں داخل کروانے کا فیصلہ ہی غلط تھا .