پچھلے ماہ 24 ستمبر کو اسی سڑک کا افتتاح تھا خوب رونق رہی . تنبو قناتیں لگائی گئیں. سیاسی گروپ کی جانب سے دیگیں چڑھیں. علاقے والوں نے ایک روز میلے کا مژدہ لیا ....ہولی کھیلی گئی .
پورا علاقہ اپنے اپنے گھر فراموش کر کے باہر سڑک پر نکل آیا . میں نے ایسی رازداری والی تنہائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمہیں جوابی خط لکھنے کے لئے کاغذ قلم اٹھا لیا اور جیسا کہ میں نے بتایا کہ صرف ابتدائی سطریں ہی کچھ لکھ پائی تھی کہ .... سب گھروں کو واپس ہوئے اور تب نجانے کیوں میں نے گھر سے باہر نکلنا چاہا کہ میں بھی باہر جا کر دیکھوں کیا ہو رہا ہے .
" تو کہاں جا رہی ہے ؟" اپنے پیچھے مجھے اماں کی پکار سنائی دی .
" میں .... باہر ....وہ " نجانے مجھے بعض اوقات کیا ہو جاتا ہے . میرا اندر فوجی جرنل کی طرح پر تحمل ہونے کی بجائے اس ادنی سپاہی کی طرح کا ہو جاتا ہے جو حالات و واقعات پر اپنی حیثیت سے بڑھ کر جلتا ' کڑھتا ہے .
" تیرا کیا کام باہر ....؟" اس بار ابا گرجے .
ابا ا ور اماں دونوں نسآور کے جوڑے کی مانند ہیں . نرم' گرم' خوش رنگ ' روئی دار اور میں اس نسآور کے جوڑے کی اولاد ہوتے ہوئے بھی چیل کا روپ دھار گئی . تیز پنجوں اور غصیلی آنکھوں والی چیل کا روپ ... میرے اندر کی ساری نوکیں میری زبان پر اگ آئیں. اور ابا نے ایک پورے ہاتھ کا طمانچہ میرے منہ پر دے مارا .
تجھے تو پتا ہے نہ زارا ....میرا ابا کیسا شفیق ' کیسا مہربان قسم کا انسان ہے . عجوہ کی طرح بے شک و شبہ میٹھا .... ہم تینوں ، بہنوں اور اماں سے انہوں نے کبھی تیز آواز میں بات نہیں کی . اپنے ہی گھر میں دستک دے کر داخل ہوتے ہیں . اماں کا تو وہ ایسے احترام کرتے ہیں جیسے وہ ان کی بیوی نہیں بلکہ استانی ہوں اور استانی بھی حفظ و ناظرہ والی ....نظریں جھکائے رکھتے ہیں ان کے آگے . آپ جناب سے بات کرتے ہیں . ابا اپنی ساری کمائی اور بازار سے لایا ہوا سودا سلف اماں کے ہاتھ پر ایسے رکھتے ہیں جیسے کوئی فرمانبردار بیٹا اپنی ماں کے آگے جھکتا ہی چلا جاۓ . دونوں کی محبت پنجابی کڑھائی کی طرح بڑی واضح واضح ہے .
ابا کی سست چال میں عاجزی ہے . سرمہ لگی آنکھوں میں اطمینان قلب اور بھیگے ٹپ ٹپ کرتے لہجے میں قرب الہی کا خواب .... ابا ان پرندوں میں سے ہیں جو ہجرت نہیں کرتے . کونے میں دبکے وہ ہر مصیبت ہر پریشانی کو رضائے خداوندی سمجھ کر سہ جانا چاہتے ہیں . ابا کے ماتھے کا محراب ہمارے گھر کا الم بنا ہوا ہے . یہ ادھ انچ کا گول سیاہ نشان ہمیں اپنے محلے ' علاقے ' خاندان ' برادری میں دیوار کے درخت کی طرح ممتاز کر دیتا ہے . مجھے اکثر لگا کہ رشتے داروں کے گھروں میں ہماری عزت افزائی میں اس محراب کا بڑا عمل دخل رہا ہے . ہمارے ناموں میں بھی بنت کے بعد ابا کا نہیں . بلکہ اس محراب کا ہی ذکر ملتا ہے .
عزت ' قدر ' مرتبہ ' حکمران 'توقیر ' وارث ' سرپرست ابا بیک وقت ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہیں .
گھر میں تینوں بیٹیوں کی ایک کے بعد ایک پیدائش کے بعد بھی انہوں نے کبھی بیٹے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا . جب کبھی کوئی بے تکلف اس پاس والا اس طرف اشارہ کرتا اور ابا آڑو کی گوند جیسی لچلچی سی مسکراہٹ کے ساتھ بات ٹال دیتے .