" الله .... تھکا دیا تمہارے کمرے کی صفائی نے تو .... حالانکہ میں تو پورے گھر کی صفائی کرتے نہیں تھکتی . اتنی دھول ' اتنی مٹی ...."
تم نے گندے پانی کی بالٹی اور پرانے سویٹر کا پانی سے تر بتر پوچا باہر صحن میں لا کر دے مارا تھا اور تھکن کے مارے خود بھی وہاں بیٹھ گئی تھیں . اماں ' رضیہ باجی ' میرا اور اقرا کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا .
" لگتا ہے کال بیساکھی تمہارے گھر پڑاؤ کرتی ہے . " تم نڈھال تھیں .
پھر میرے استفسار پر تم نے بتایا تھا کہ بیساکھ کے مہینے میں میدانی علاقوں میں اٹھنے والی خوف ناک آندھی ... جس میں بے تحاشا دھول ہوتی ہے . مٹی اور بھیانک آوازیں ... اور جو انتہائی تیز رفتار ہوتی ہے . اسے کال بیساکھی کہتے ہیں .
تب میرے دل میں اچانک سے خیال آیا تھا کہ یہ خوف ناک آندھی میدانی علاقے سے مستعار لی مٹی ، دھول یقینا نشیبی ' پہاڑی یا اونچائی والے علاقوں میں جا کر ٹھہراتی بھی ہو گی . یہ آندھی کہیں تو رکتی ہو گی . کہیں تو ٹوٹتی ہو گی . چاہے اپنے آغاز پر ہی . پھر وہاں کے مکینوں کا کیا حال ہوتا ہو گا . اتنی دھول مٹی میں کیا وہ قبروں کا ذائقہ نہیں چکھ لیتے ہوں گے .
میں جنم جلی ' کرم جلی .... خیالات اور سوچ جلی بھی ....کہاں جانتی تھی کہ ایسی باغیانہ باتیں ' نادان لڑکیوں کو نہیں سوچنی چاہیے . تقدیر ظرف دیکھ لیتی ہے اور پھر ان ہی حالات سے دوچار کر دیتی ہے .
" ہمارے ادھر سڑک نہیں نہ بنی ہوئی . اس لئے دھول بہت اڑتی ہے ." رضیہ باجی نے تمہیں وضاحت دی تھی . لیکن یہ وضاحت تمہارے چہرے سے دھول اور تھکن نہ اتار سکی تھی . تمہیں تو پتا ہے . ہمارے گھر کے سامنے کی سڑک مدتوں سے چوڑی پکڈنڈی بنی رہی ہے . آدھی کیچڑ ' آدھی پتھر اور تھوڑی کوڑے کرکٹ سے بھری ... ہوا کا تیز جھونکا یا کسی مسافر گاڑی کا ہلکا سا فراٹا اتنی دھول اڑاتا جیسے بہار کے موسم میں ڈوڈیاں پھٹتی ہیں اور رواں رواں چاروں طرف پھیل جاتا ہے . گرد اندر فرنیچر کی درازوں تک میں بھر جاتی ہے .اسی با عث تو علاقے کے لوگ اپنے گھر کے کھڑکیاں اور دروازے بند رکھتے تھے . لیکن اب سڑک بن گئی ہے . دھول ، مٹی ' گرد نہیں اڑتی ' ہوا نے نمی کو سمیٹ کر ماحول کو بارش کے بعد کی طرح صاف ستھرا کر دیا ہے .پھر بھی عجیب بات ہے . کواڑ نہیں کھل رہے ' کوئی اتنی ہمت ہی نہیں کر رہا . سب جیسے اسی مٹی کے عادی تھے . کنویں میں بند تھے . نیند ٹوٹی تو بد حواس ہو گئے .
اس سڑک کی بدحالی کی وجہ دو سیاسی پارٹیوں کا آپس میں جھگڑا تھا . دونوں اسی کوششوں میں رہے کہ سڑک ان کی زمینوں کے آگے سے گزرے .تاکہ ان کی زمینوں کی قیمتیں بڑھیں. پتا نہیں دونو ں کی مقصد اپنی جاگیروں کا شملہ اونچا کرنا تھا یا دوجے کا نیچے گرانا . اسی چکر میں سال پہ سال دن پہ دن بارش کے قطروں کی طرح ایک پر ایک کرتے رہے . لوگ بھی چھچھوندر ' گیڈر بنے اس سارے معاملے سے لا تعلق رہے .پھر شاید الله ہی کو رحم آ گیا . سڑک بن گئی .
کیچڑ ' گارے ' دھول ' کوڑے اور بجری ریت اور روڑے کی تہہ بچھائی گئی . پھر تار کول کا لیپ کر کے بلڈوزر پھیرا گیا . کناروں کناروں پر پیلے پینٹ کی پٹی بھی بچھائی گئی .